0

شہ رگ کی بیٹی کا عالمی ضمیر سے سوال، تحریر: سمعیہ ساجد

عنوان : پہلگام سانحہ کے بعد مقبوضہ کشمیر کی بدلتی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: سمعیہ ساجد۔۔۔۔شہ رگ کی بیٹی کا عالمی ضمیر سے سوال !
مقبوضہ کشمیر کی لہو رنگ وادی ایک بار پھر مظلومیت کی نئی داستان رقم کر رہی ہے۔ پہلگام میں پیش آنے والے ہولناک واقعہ نے نہ صرف کشمیریوں کے دلوں پر ایک اور کاری ضرب لگائی ہے، بلکہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں، جنہیں ہر مظلوم کی آواز بننا چاہیے، مجرمانہ خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھی ہیں۔ حریت قائدین، جو مظلوم کشمیریوں کے لیے اُمید کی کرن ہیں، ان کے گھروں کو بھارتی قابض فورسز نے تباہ کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کی حمایت کشمیری عوام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہی ہے۔
میرا تعلق چونکہ مقبوضہ کشمیر سے ہے، اس لیے ان واقعات کا درد میرے وجود میں رچا بسا ہے۔ ہر خبر، ہر تصویر، ہر چیخ میرے دل کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔ پہلگام کا واقعہ میرے لیے محض ایک سانحہ نہیں، بلکہ میرے اپنے جسم پر لگنے والا زخم ہے۔
پہلگام کا سانحہ: ظلم کی تازہ ترین داستان:پہلگام، جو کبھی اپنی حسین وادیوں اور جھرنوں کی بدولت جنت نظیر کہلاتا تھا، اب بھارتی ظلم و ستم کی علامت بن گیا ہے۔ حالیہ واقعہ میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی، جس میں درجنوں افراد شہید اور بے شمار زخمی ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق، فوجی اہلکار بغیر کسی اشتعال کے گھروں میں گھس آئے، عورتوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور مردوں کو بلا امتیاز گولیوں سے بھون دیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ فوجی کارروائی کا مقصد صرف اور صرف خوف پھیلانا تھا۔ نہ کسی قسم کی جھڑپ ہوئی تھی اور نہ ہی کسی عسکری کارروائی کا کوئی نشان موجود تھا۔ اس کے باوجود پہلگام کی گلیاں لہو میں نہلا دی گئیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی: ایک سوالیہ نشان:جب فلسطین، یمن یا کسی دوسرے خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو عالمی برادری فوراً حرکت میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنرز، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر ادارے بیانات جاری کرتے ہیں۔ مگر کشمیر میں ظلم ہو تو یہ تمام ادارے خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟
کیا کشمیریوں کا خون ارزاں ہے؟
کیا کشمیریوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں؟
کیا انصاف کے عالمی معیار خطوں کے لحاظ سے بدلتے ہیں؟
ہم نے دیکھا کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھی انسانی حقوق کی تنظیموں نے محض رسمی بیانات پر اکتفا کیا، یا اکثر نے تو کوئی بیان دینا بھی گوارا نہ کیا۔ یہ خاموشی، یہ مجرمانہ غفلت، ظالم کو مزید شہہ دیتی ہے۔ عالمی ضمیر کی اس مردنی پر سوال اٹھانا ہمارا حق ہے۔
حریت قائدین کے گھروں کی تباہی: ایک نیا محاذ ظلم کا :بھارتی قابض حکومت نے اب ایک نئی پالیسی اپنائی ہے: جو بولے گا، جو آزادی کا نعرہ لگائے گا، اس کا گھر مٹا دیا جائے گا۔اب صرف افراد کو قید نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے خاندانوں کو اجتماعی سزا دی جاتی ہے۔
سید علی گیلانیؒ کے خاندان کو مسلسل ہراساں کیا گیا۔
میر واعظ عمر فاروق کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
یاسین ملک جیسے حریت پسند کو غیر انسانی حالات میں قید کر کے سزائے موت کی تیاری کی جا رہی ہے۔اب نہ صرف یہ کہ ان افراد کو سزائیں دی جا رہی ہیں بلکہ ان کے گھروں کو مسمار کر کے ان کی یادوں کو بھی مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گھروں کی تباہی صرف اینٹ اور پتھر کو توڑنے کا عمل نہیں، بلکہ کشمیریوں کے حوصلے کو توڑنے کی سازش ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ کشمیریوں کا جذبہ حریت کبھی ماند نہیں پڑا، نہ پڑے گا۔
پاکستان اور افواجِ پاکستان: کشمیریوں کا سہارا:جب ساری دنیا نے آنکھیں پھیر لیں، جب اپنوں کے گھروں کو بھی راکھ بنا دیا گیا، تب پاکستان نے کشمیریوں کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کے05فروری کو مظفرآباد میں جہاں میں خود بھی موجود تھی اور پھر اوور سیز کنونشن میں کشمیر یوں کے لیے دوٹوک موقف سے آر پار کشمیر یوں حوصلہ بلند ہوئے واہی ہندوستان اور ہندوستانی حکومت میں خوف پیدا ہوا ، ہر عالمی فورم پر پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا۔ ہر موقع پر کشمیریوں کی آواز بن کر دنیا کو یاد دلایا کہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے اور یہاں کے عوام کو حقِ خودارادیت حاصل ہے۔پاک افواج، جو دنیا کی جری ترین افواج میں شمار ہوتی ہیں، ہمیشہ کشمیری عوام کے لیے دعاگو اور تیار رہی ہیں۔چاہے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت ہو یا عالمی سطح پر کشمیر کا دفاع، پاک فوج نے کشمیریوں کا مقدمہ اپنا مقدمہ سمجھ کر لڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میری طر ح ہر کشمیری اپنے دل میں پاکستانی پرچم کا خواب بسائے جیتے ہیں اور‘‘کشمیر بنے گا پاکستان’’کا نعرہ ہر ظلم کے جواب میں گونجتا ہے۔
میرا ذاتی دکھ: مقبوضہ کشمیر کا خون میری رگوں میں دوڑتا ہے:میرا تعلق مقبوضہ کشمیر کے اس علاقے سے ہے جہاں ہر صبح بھارتی فوج کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے طلوع ہوتی ہے اور ہر شام کسی نہ کسی جنازے کے ساتھ رخصت ہوتی ہے۔
٭میں نے اپنے بچپن میں کنپٹیوں پر بندوق کی نال دیکھی ہے۔
٭میں نے اپنی ماں کو بیٹے کے جنازے پر بین کرتے دیکھا ہے۔
٭میں نے اپنے باپ کو زخمی دوستوں کو کندھوں پر اٹھاتے دیکھا ہے۔
٭پہلگام کا واقعہ میرے لیے کوئی اجنبی خبر نہیں، بلکہ میرے اپنے وجود کا نوحہ ہے۔
جب میں پہلگام کی تصویریں دیکھتی ہوں تو مجھے اپنا گھر یاد آتا ہے جسے بھارتی فوجیوں نے تاراج کیا تھا۔
شہداء کشمیر کی قربانیاں: تاریخ کا روشن باب:کشمیر کی سرزمین شہداء کے لہو سے رنگین ہے۔ ہر گلی، ہر بستی، ہر پہاڑ، ہر وادی شہداء کے خون کی گواہی دیتی ہے۔پہلگام سانحہ ہو یا پلوامہ میں بھارتی بربریت، کپواڑہ کے جنگل ہوں یا سری نگر کی گلیاں — ہر جگہ کشمیریوں نے اپنے خون سے آزادی کا چراغ روشن رکھا ہے۔
تاریخ ساز شہداء
• برہان مظفر وانی — نوجوان حریت پسند، جس کی شہادت نے پوری تحریک میں نئی روح پھونک دی۔
• شہید افضل گورو — جسے غیر منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد پھانسی دی گئی اور جس کی تدفین بھی بھارتی جیل میں کی گئی۔
ان کے علاوہ ہزاروں بے نام شہداء جن کے قبروں پر کتبے بھی نہیں، جنہیں رات کی تاریکی میں دفنایا گیا، یا جو اب بھی لاپتہ ہیں ۔سب نے آزادی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
ان شہداء کی قربانیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ آزادی خون مانگتی ہے، عزم مانگتی ہے، قربانی مانگتی ہے۔
پاکستان کی کشمیر پالیسی کا جائزہ:بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ کے مطابق، کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے۔ریاست پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کی ہے۔
اہم اقدامات:
• عالمی فورمز پر بھارت کے مظالم کو بے نقاب کیا جاتا ہے۔
• کشمیری حریت قیادت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جاتا ہے۔
پہلگام کے متاثرہ خاندانوں کی کہانیاں: زخموں کی گواہی،پہلگام کا سانحہ صرف ایک واقعہ نہیں، یہ بے شمار داستانوں کا مجموعہ ہے:معصوم احمد کا قصہ
معصوم احمد، 16 سال کا ایک طالبعلم، اسکول سے واپسی پر بھارتی فوج کی فائرنگ کا نشانہ بنا۔
اس کی ماں کی آہیں آج بھی پہاڑوں میں گونج رہی ہیں:
میرا بیٹا صرف قلم پکڑتا تھا، بندوق نہیں۔ پھر اسے کیوں مارا گیا؟
رفعت بی بی کی بے دخلی
رفعت بی بی کا گھر فوج نے جلا دیا۔وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھی روتی رہی۔کہتی ہیں:ہم نے کبھی سیاست نہیں کی، ہم تو صرف جینے کا حق مانگتے تھے۔ کیا یہ جرم تھا؟
یہ درد محض جذباتی نہیں بلکہ میری شناخت کا حصہ ہے۔ اس لیے میں دنیا سے سوال کرتی ہوں:
آخر کب تک؟
کب تک کشمیری ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گی؟
٭کب تک مظلوموں کی چیخیں خاموشی میں دبائی جاتی رہیں گی؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں