وادی نیلم قدرت کا شاہکار خطہ
تحریر: ضیاء سرور قریشی
یوں تو وادی نیلم آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے شروع ہو کر تاوبٹ تک دو سو چالیس کلو میٹر کی مسافت پر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی کا نام ہے۔اس کا سرسری جائزہ۔
دریائے نیلم کے دونوں کناروں پہ آباد یہ وادی ضلع نیلم تقریبا دو لاکھ سے زائد نفوس ،چھیانوے چھوٹے بڑئے دیہات ،نو یونین کونسلوں ،دو ٹاون کمیٹیوں اور دو حلقہ انتخاب پر مشتمل ہے۔یہ علاقہ آزادی سے قبل دراوہ اور آزاد حکومت کے قیام کے نو سال بعد انیس سو چھپین میں قائم حکومت کی کابینہ میٹنگ میں غازی کشمیر سید محمد امین گیلانی نے کشن گنگا دریا کا نام دریاے نیلم اور دراوہ کا نام وآدی نیلم تجویز کیا۔کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ نام تبدیل کر دیے گے ۔نیلم ویلی جو سر سبز شاداب ،قدرتی مناظر،گھنے جنگلات،صاف شفاف ٹھنڈے چشموں ،فلک بوس پہاڑوں، شفا بخش ،جڑی بوٹیوں اور دلکش جھیلوں کے علاوہ بے شمار ندی نالوں کو اپنے حصار میں لیے ہوے دیکھنے والوں کی توجہ کی منتظر ہے۔جنت اراضی کا یہ گوشہ جہاں جو قدرت کی بے پناہ رعنایوں اور فیاضیوں سے مالا مال ہے اس کے بر عکس یہاں کے لوگ اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ چلے آرہے ہیں ۔اس کی بڑی وجوہات یہ ہے کہ نیلم ویلی کی عوام کی بد قسمتی کی داستان کا آغاز اس دن سے ہوتا ہے جب جنوری انیس سو اڑتالیس کی اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ریاست میں جنگ بندی کا اعلان ہوا اور اس کے نتیجے میں نیلم ویلی کے اہم علاقے انڈین آرمی کے زیر قبضہ رہ گے ۔جہنیں ابھی تک آزاد نہیں کرایا جاسکا۔اس طرح تاوبٹ قمری سے آگے کے علاقوں پہ بھی سیز فائر کے وقت انڈین فوج قابض ہو چکی تھی لہذا اس ویلی کے بالائی علاقے کا کنٹرول بھی انڈین آرمی نے سنبھال لیا۔جنگ بندی کے چند سال بعد مظفرآباد سے نوسیری تک دفاعی ضروریات کے لیے فیروید ر روڈ تعمیر کی گی جبکہ انیس سو ترینسٹھ تک سولہ سال کے عرصے میں نوسیری سے آٹھمقام تک سڑک بذریہ پی ڈبلیو ڈی تعمیر ہوئی۔انیس سو چوہتر کے آخر میں اس کی توسیع شاردہ اور پھر کیل تک کی گی یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ کیل اور گریس کی عوام کا دارلحکومت مظفرآباد سے بذریعہ سڑک رابطہ آزادی کے پینتیس سال بعد ممکن ہوا اس کے باوجود سڑک کی تعمیر کے بعد یہ علاقہ تیزی کے ساتھ ترقی کرنے لگا۔اور انیس سو اٹھاسی تک اس جنت نظیر وآدی کے فطری حسن کا نظارہ کرنے موسم گرما میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں آتے رہے۔لیکن نیلم ویلی کی ہریالی ،عوام کی خوش حالی اور تیزی سے رونما ہونے والی اقتصادی ترقی انیس سو انناسی کے آخر میں اس وقت نظر بد کا شکار ہو گی جب مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں نے حصول آزادی کے لیے مسلح جدو جہد کا آغاز کیا۔اس کے ساتھ ساتھ ضلع نیلم کا تمام علاقہ جو لائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع ہے پر انڈین قابض فوج نے عوام کو ھراساں کرنے کے لیے گولہ باری کا لا متناعی سلسلہ شروع کر دیا۔نومبر انیس سو اٹھانوے کی شلنگ سے محسوس ہوتا تھا کہ انڈیا کی تمام توپوں کا رخ نیلم ویلی کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔نیلم ویلی کی شہ رگ شاہراہ نیلم کو پہلے ہی مختلف مقامات سے بند کر دیا گیا تھا اور دو ہزار تین تک مسلسل چودہ سال انڈین فوج نے اس علاقہ میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی ۔نیلم ویلی کے کئی علاقے میدان جنگ میں بدل دیے گے جہاں خوشحالی ،امن ،سماجی واقتصادی اور تعلیمی ترقی تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھی ۔اس غیر اعلانیہ جنگ کی بدولت ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔سات ہزار سے ذائد مرد خواتین بچے فائرنگ اور گولہ باری کی ذد میں آکر ذخمی ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں اپاہج ہوئے۔جورا،اٹھمقام،لوات اور کیل کے بازار کئی بار نذر آتش کیے گیے تیرا سو سے ذائد رہائشی مکان گولہ باری سے جل کر خاکستر ہوئے اٹھمقام جو اس وقت سب ڈویژن ہیڈ کواٹر تھا کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔تعلیمی ادارے مسلسل گولہ باری کے باعث بند رہے۔انسانی ضروریات ناپید رہیں۔ بے روز گاری نے اس علاقہ کی بڑی تعداد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ان حالات نے علاقے میں غربت کو اس قدر توانا کر دیا کہ لوگوں کی قوت خرید جواب دے گی ۔اس چودہ سالہ انڈین فائرنگ اور گولہ باری کے دورانیہ نے وسیع وعریض وادی کے عوام کو غربت ،جہالت اور مہنگائی کے شکنجے میں جکڑ دیا۔اس علاقے میں آمددورفت کے لیے لیسواہ اور نیلم بائی پاس سڑکیں تعمیر کی گئیں لیکن یہ سڑکیں بھی انڈین فائرنگ کی ذد سے نہ بچ سکیں۔ البتہ ان سڑکوں پر رات کی تاریکی میں ٹریفک چلتی رہی۔بائی پاس سڑکوں پر معتدد بار پبلک ٹرانسپورٹ کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور کئی ایکسیڈنٹ بھی ہوئے جن سے سینکڑوں جانیں لقمہ اجل بن گیئں ان تمام تر مشکلات کے باوجود جب دو ہزار تین میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے کنٹرول لائن پر فائر بندی ہوئی تو علاقہ کی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔فائر بندی کے بعد ضلع نیلم کے قیام کی صورت میں متاثرہ عوام کی کس قدر اشک شوئی ہوئی اس غیر معمولی اقدام پر عوام علاقہ نے پہلی بار خوشی کا ظہار اس وقت کیا جب سردار سکندر حیات خان وزیراعظم (وقت) نے ایک بہت بڑئے تاریخی جلسہ عام میں چودہ مئی دو ہزار پانچ کو ضلع نیلم کا افتتاح کیا۔اس سے قبل وہ پانچ فروری دو ہزار پانچ کو اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں ضلع کے قیام کا اعلان کر چکے تھے۔متاثرین علاقہ جن دیگر مطالبات کا اصرار کرتے رہے ان میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ یہاں ایک کیڈٹ کالج اور پاکستان کے پیشہ ورانہ کالجوں میں تعلیم کے لیے خصوصی نشستیں دی جائیں ۔نیلم ویلی کو دو مقامات پر کاغان ویلی کے ساتھ ملانے کے لیے سڑک کی تعمیر کی جائے’ضلع نیلم کی تباہی اور عوام کی بد قسمتی کا دوسرا دور آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کے قیامت خیز زلزلہ سے شروع ہوتا ہے۔۔جب مظفرآباد دارلحکومت سمیت باغ،راولا کوٹ اور ضلع نیلم کی دو زیریں یونین کونسل باڑیاں اور اشکوٹ میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی ۔اگر چہ مطفرآباد تا نوسیری کی نسبت ان دو یونین کونسلوں میں جاں بحق ہونے والوں کی شرح نسبتا کم تھی لیکن نیلم ویلی روڈ مظفرآباد تا باڑیاں سو فیصد تباہ ہو گئی ۔اور باڑیاں تا آٹھمقام سڑک کو جزوی نقصان پہنچا اس طرح نیلم ویلی کی عوام آمدورفت کی سہولت سے ایک بار پھر محروم ہو گئی یہ سڑک جو زلزلہ سے قبل زیر تعمیر تھی اور اس کی پختگی اور کشادگی کا کام جاری تھا بعد زلزلہ یہ سڑک موت کے کنویں کا منظر پیش کرنے لگی،سڑک کی خراب حالت کے باعث اس پہ حادثات روز مرہ کا معمول بن گئے لیکن اس کے باوجود سڑک کی تعمیر نو کا معاملہ حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کے لیے ایک سوالیہ نشان بنا رہا ۔بعد ازاں نیلم روڈ کو بین الاقوامی سطح پہ بنانے کے کیے چائینہ کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ۔جس پہ کام ہو رہا ہے۔ارباب اختیار کی عدم توجہی نے مظفرآباد سے تاوبٹ کی چار لاکھ سے زائد آبادی کو خوفناک حالات سے دو چار کر رکھا ہے۔
وآدی نیلم کا خطہ بڑا مردم خیز ہے۔اس علاقہ میں آزادی سے قبل اور بعد میں جن بڑی بڑی نامور سیاسی اور سماجی دینی و روحانی شخصیات نے جنم لیا کا مختصر تذکرہ ضروری ہے۔ دارلعلوم دیو بن کے جید عالم علامہ انور شاہ کاشمیری ،مولانا محمد سعید مسعودی جو جنرل سیکرٹری نیشنل کانفرنس اور ممبر انڈین پارلیمنٹ رہے۔سنٹر بار ایسوسی ایشن مظفرآباد کے رکن محمد عبداللہ شاہ مسعودی کے والد گرامی مولانا غلام مصطفےٰ شاہ مسعودی ممبر کشمیر اسمبلی کے نام شامل ہیں،علمی روحانی شخصیات میں میاں مرزا عبدالرشید ،مولانا برکت اللہ جھاگوی،مفتی اسرائیل قابل ذکر ہیں۔آذاد کشمیر میں جب قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا تو اس علاقہ سے میں غلام رسول (مرحوم) چار مرتبہ ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوتے رہے اور متعدد بار وزارت کے عہدئے پر فائز رہے۔ ۔سردار گل خنداں دو بار ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر حکومت کے طور پہ علاقے کی خدمت کرتے رہے۔دو ہزار ایک کے عام انتخاب میں مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پہ مفتی منصور الرحمان منتخب ہوئے جن کے پاس کئی وزارتوں کا قلمدان رہا اور ان کے دور میں علاقہ کو ضلع کا درجہ ملا۔میاں عبدلوحید ایڈوکیٹ دو ہزار چار کے عام انتخاب میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور علاقہ کی نمائندگی کرتے رہے۔محترمہ شمع ملک کا تعلق بھی ضلع نیلم سے ہے وہ خواتین کی نشست پر اسمبلی ممبر منتخب ہوئیں اور مشیر حکومت برائے سماجی بہبود بھی رہیں ۔ان کے والد صاحب ملک غلام علی قد آور سیاسی کارکن تھے۔ علاوہ ازیں سردار سخی ازمان سابق سیکریٹری ورکس اور محمد سعید مغل سابق سیکرٹری جنگلات اکلاس کا تعلق بھی اسی خطہ سے ہے۔مرحوم میر گوہر الرحمان ایڈوکیٹ نہ صرف متعدد بار ایسو سی ایشن کے صدر رہے بلکہ وہ کئی بار بلدیہ اٹھمقام کے چیر مین بھی منتخب ہوتے رہے۔اور نیلم کی سیاست میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
نیلم ویلی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ آبی وسائل سے آراستہ کر رکھا ہے اس میں مجموعی طور پہ پچیس ایسے چھوٹے بڑے نالے موجود ہیں جن پہ ہائیڈرل پاور ہاوس تعمیر کر کے وافر مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔جن نالوں پہ ہائیڈرل پاور ہاوس تعمیر کرنے کے منصوبہ جات زیر غور ہیں ان میں نالہ گگئی، نالہ ہلمت، نالہ سرگن ،نالہ جانوہی ،نالہ شونٹھر ،لوات، نکدر اور جاگراں شامل ہیں۔نالہ جاگراں پر پہلے سے زیر زمین ایک ہائیڈرل پاور ہاوس تعمیر ہے جو پانچ سو میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ جاگراں فیز ٹو کا منصوبہ بھی زیر کار ہے ایک اندازئے کے مطابق نیلم ویلی میں پانچ ہزار سے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے امکانات موجود ہیں یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ جاگراں ہائیڈرل پاور کے علاوہ جتنے بھی پاور ہاوس آذاد کشمیرمحکمہ برقیات یا ہائیڈرل بورڈ نے تعمیر کیے وہ اکثر خراب خالت میں رہتے ہیں۔ان سے توانائی کے وہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے ،جو عوامی ضروریات کے مطابق تھے اس کے برعکس جاگراں پاور ہاوس غیر ملکی فرم نے تعمیر کیا تھا ، جو ٹھیک حالت میں کام کر رہا ہے۔
ویلی کے چند مشہور دیہاتوں کا ذکر بھی مناسب ہو گا تاکہ قارئین میں سیاحتی ذوق کو اجاگر کیا جا سکے۔
تاوبٹ:۔ یہ گاؤں ضلع نیلم کا سر حدی گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے اختتام پہ نالہ گگئی دریائے نیلم میں آ ملتا ہے اس سے آگے کا علاقہ انڈین کنٹرول میں ہے۔ تاوبٹ سے آٹھارہ کلو میٹر دور مقبوضہ علاقے میں کشن گنگا ڈیم تکمیل کے مرحلہ پہ ہے اس طرح آئندہ کچھ برسوں میں دریاے کیشن گنگا کا پانی روک دیا جائے گا جس سے دریائے نیلم اس اضافی پانی سے محروم ہو جائے گا۔
ہلمت:۔انتہائی خوبصورت گاؤں ہے جو وسیع میدانی علاقہ پر مشتمل ہے،جس میں میں مکئی کاشت کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ لوگ ایک خاص قسم کی سبزی اگاتے ہیں جس کے پتے بڑے چوڑے ہوتے ہیں مخصوص ذائقہ کی بدولت اس سبزی کو بہت پسند کیا جاتا ہے اس گاؤں میں سب سے زیادہ خوبصورت جگہ پہ ریسٹ ہاوس تعمیر ہے یہ ایریا بڑا کشادہ سر سبز ہے یہاں ایک خاص قسم کی گھاس رات کو روشنی دیتی ہے اور عجیب سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔
سرداری کریم آباد اور نکروں:۔یونین کونسل گریس کے انتہائی دلفریب اور قابل دید دیہات ہیں ،یہاں کے مکانات کی طرز تعمیر کشمیر فن تعمیر کے عکاس ہیں،ان دیہاتوں میں لوگ آلو ،مکئی ،بڑے پتوں والی سبزی کڑم اور مکئی ایک ساتھ کاشت کرتے ہیں۔ کاشت کاری کا ذیادہ تر کام خواتین کرتی ہیں جو گوڈی اور فصل کی کٹائی کے موقع پر ٹولیوں کی صورت میں پورا دن کھتوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔یہاں کی ثقافت منفرد تاریخی اثاثہ ہے۔
جانوہی :۔کا گاؤں فلک بوس ،،ننگی ماہلی،، کے دامن میں واقع ہے اس پہاڑی سلسلہ میں قدرت کے بے بہا قیمتی پتھروں کے ذخائر موجود ہیں۔ جانوہی میں ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاوس بھی ہے جس کی توسیع عرصہ چالیس سال میں نہیں میں بھی نہیں ہو سکی البتہ اس مقام پہ اب لوکل گورنمنٹ نے ایک ریسٹ ہاوس تعمیر کیا ہے جس سے آنے والے افراد کو سہولت میسر آسکتی ہے۔
ڈھکی چکناڑ:۔ یہ علاقہ بڑے دشوار گزار دیہات پر مشتمل ہے جو کنٹرول لائن کے بالکل نزدیک واقع ہے یہاں کے لوگ پشتو سپیکنگ ہیں اور یہ واحد دو گاؤں ہیں جہاں پر پشتو بولی جاتی ہے ان مواضعات کے مکینوں کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قبائیل شمالی علاقہ جات سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے ہیں۔
کیل :۔ کاروباری مرکز ہے۔ فلک بوس اور برف پوش خوبصورت پہاڑوں کی آغوش میں واقع انتہائی حسین و جمیل خطہ دل فریب اور پر سکون صحت افزاء مقام ہے ۔ یہ خطہ خوش مزاج اور صحت مند لوگوں کا مسکن ہے یہاں کا آلو اور دال موٹھیا (لوبیا) بہت مشہور ہے ۔ وسیع سبزہ زاروں پر مشتمل علاقہ ہے۔پولو یہاں کا مشہور کھیل ہے ۔عموما سماجی تقریبات میں یہاں کے لوگ بڑی زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ سردار حبیب اللہ خان (مرحوم) اور سردار محمد سرور خان (مرحوم) کا علاقہ میں بڑا احترام رہا ہے۔ لونڈا بہک :۔شونٹھر ویلی کے راسہ گرمیوں میں کیل اور گردونواح کی نوئے فیصد آبادی یہاں منتقل ہو جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ بکر والوں کا خانہ بدوش طبقہ بھی گرمیاں اسی صحت افزاء اور خوبصورت خطہ میں گزارتا ہے ۔ میلوں تک وسیع سبزا زاروں میں جولائی کے مہینہ میں رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں عام طور پر علاقہ کے لوگ شادیوں کی تقریبات موسم گرما میں منعقد کرتے ہیں ان طویل سبزا زاروں پر گھڑ دوڑ کے مقابلے ہوتے ہیں۔یہاں کی گاس نرم اور گداز ہوتی ہے۔ یہاں سیف الملوک جھیل سے دوگنا بڑی لونڈا جھیل ہے جس کے ارد گرد وسیع سبزا زار واقع ہے جس پہ ننگے پاوں چلنے سے بڑا سکون ملتا ہے۔شاردہ:۔ ضلع نیلم کا دوسرا سب ڈویژن ہے ۔ دلفریب قدرتی حسن سے مالا مال جنت اراضی کا یہ خطہ زمانہ قدیم میں علم و دانش کا مرکز رہا ہے ۔ جس کے کحچھ آثار اب بھی موجود ہیں جو تاریخ سے دلچسبی رکھنے والوں کو دعوت فکر دے رہے ہیں ۔ کیا شاردہ مندر تھا یا دانش گاہ تھی ؟ اس پہ اب بھی تحقیق ہو رہی ہے ۔
ریاست کے نامور شاعر ادیب اور محقق ڈاکٹر احمد دین صابر آفاقی کی تحقیق کے مطابق شاردہ اور سرسوتی ہندو عقیدہ میں برہما کی اہلیہ کے دو نام ہیں ۔ جنہیں علم و دانش کی دیوی مانا گیا ہے ۔ زمانہ قدیم میں مندر گیہاں دھان (عبادت) اور تعلیم کے مرکز تھے ۔اس لیے بعید نہیں کہ شاردہ کوئی دانش گاہ اور شاردہ رسم الخط کی آماجگاہ رہی ہو ۔ انہوں نے اسٹائین کے تاریخی حوالہ کا تذکرہ یوں کیا ہے ۔کہ ایک چینی عالم ھیم چندر ( دس سو اٹھاسی سے گیارہ سو بہتر ) نے اپنی تصنیٍف ،، بھارت چرت ،، میں لکھا ہے کہ گجرات کے راجہ جے سنگھ نے اسے مامور کیا کہ وہ سنسکرت کی نئی گر ائمر مرتب کرے جس پر ھیم چندر نے درخواست کی کہ وہ آٹھ کتابیں اسے فراہم کی جائیں جو کشمیر میں سر سوتی شاردہ مندر سے مل سکتی ہیں ۔ چنانچہ راجہ جے سنگھ نے کشمیر میں اس مقصد کیلئے وفد بھیجا اور مطلوبہ کتب حاصل کی گئیں ، چناںچہ ان آٹھ کتابوں کو سامنے رکھ کر ھیم چندر نے سنسکرت کی نئی گرائمر تر تیب دی ۔ شاردہ کا تذکرہ راجہ ترنگنی ( گیارہ سو انچاس) میں بھی تفصیل سے ملتا ہے ۔ اس کے مطابق شاردہ کا مندر
دریاے مدھومتی (کشن گنگا ) کے کنارے آباد ہے ۔ اس مندر میں لکڑی نکا خوبصورت مجسمہ رکھا گیا ہے ۔ جس کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے ِ بنگال تک کے لوگ یاترہ کے لیے یہاں آتے ہیں ۔ البیرونی نے اس مندر کا جغرافیہ اور کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ ملتان کے سورج دیوتا تھامنیر کے چکر سوامی اور سو منات کے مندر کے بعد شاردہ بھی بہت بڑا مندر ہے ۔ یہ مندر سرینگر سے کوئی دو ، تین روز کی مسافت پہ کوہستان بلور کی سمت ایک مشہور صنم کدہ ہے ۔ اکیسویں صدی میں دریائے نیلم کے کنارے آباد اب یہ گاؤں شاردہ صرف سیاحت کے حوالہ سے دریائے نیلم اس گاؤں کے دامن کو چومتا ہوا خا موشی کے ساتھ گذر جاتا ہے ۔
لوات بالا : ۔ نیلم بائی پاس پر واقع زرخیز اور خوبصورت خطہ علاقہ میں بہت مشہور ہے ، یہاں کی شرح خوانگی ضلع نیلم کے تمام دیہاتوں سے زیادہ ہے ۔ واحد اس گاؤں کے باون جر یدہ اور بارہ سو سے ذیادہ مرد خواتین ملازم پیشہ ہیں ۔ آذادی سے قبل لوات بالا میں مڈل سکول قائم تھا ، پوری وادی نیلم میں گراں قدر تعلیمی خدمات انجام دینے والے معروف اساتذہ عزیزالرحمان اختر ۔ گلزار احمد اور محمد گل زمان کا تعلق بھی لوات بالا سے تھا اگر چہ وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن وادی نیلم میں علم کی شمع فروزاں کرنے میں ان شخصیات کا اہم کردار ہے ۔آذاد جموں و کشمیر بار کونسل کے رکن معروف قانوں دان محمد یعقوب مغل کا تعلق اسی سر زمین سے ہے ۔
آٹھمقام :۔ ضلع نیلم کا ضلعی ہیڈ کواٹر ہے ۔
ضلعی عدالتوں کے علاوہ دو ڈگری کالج ایک معیاری ہسپتال ، جنگلات کے دفاتر ،زراعت اور محکمہ تعلیم کے دفاتر جبکہ شاہکوٹ کے مقام پر رہائشی قالونی زیر تعمیر ہے اٹھمقام میں ایک معیاری ریسٹ ہاوس موجود ہے ۔ جہاں لوگوں کو آسانی سے رہائش کی سہولت مل سکتی ہے ۔ نیلم ڈویلپمنٹ بورڈ کا مر کزی دفتر بھی اٹھمقام میں ہے ۔
دواریاں سالک آباد : ۔سالک آباد میں مولا نا برکت اللہ جھاگوی (مر حوم ) جو علاقہ کے معروف دینی اور روحانی شخصیت تھے کا مزار ہے ۔ یہاں پورا سال عقیدت مندوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ مشہور دینی ، سماجی ، اور روحانی شخصیت میاں محمد اسحاق کا مزار بھی یہیں ہے ۔ مولانا مرحوم کے صاحبزادگان میں میاں محمد شفیع ، میاں عبدلوحید برکتی ، علامہ سعید الدین برکتی اور میاں عبدلقدوس دینی سیاسی اور سماجی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ تعلیمی میدان میں بے پناہ خدمات سر انجام دینے والے ماہر تعلیم بہاوالدین بہار بھی طویل عرصہ تک دواریاں میں مقیم رہے اور پوری وادی نیلم میں علم کی روشنی پھیلانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آپ کی اولاد میں معروف شاعرہ سیدہ آمنہ بہار ، صحافی عارف بہار اور سنٹرل بار کے رکن شاہد بہار شامل ہیں ۔ یہاں ڈنہ کے خوبصورت مقام پر ریسٹ ہاوس ہے جس کے ارد گرد چیری کے درخت ہیں یہ مشہور پھل جون کے اوائیل میں پک کر تیار ہوتا ہے ، مقامی لوگ اس پھل کو گلاس کے نام سے پکارتے ہیں ۔
کنڈلشاہی : ۔پرانا تحصیل ہیڈ کواٹر اور نالہ جاگراں اور دریاے نیلم کے سنگھم پر واقع ہے یہاں کے لوگ ہندکو سپیکنگ ہیں جب کہ ایک دوسری برادری مخصوص زبان اور لب و لہجہ کی حامل جو پنجاب ، سرحد ، کشمیر کسی جگہ نہیں بولی جاتی ۔ متذکرہ آبادی کے علاوہ ان کے ہمسائے بھی یہ زبان نہیں سمجھ اور بول سکتے ۔
کٹن :۔صحت افزا اور دلفریب مقام ہے ہائیڈرل الیکٹرک بورڈ کے زیر اہتمام ایک کالونی تعمیر ہے جہاں مکانیت کی معیاری سہولت موجود ہے اور اس کالونی کو جدید تقاضوں کے مطابق تعمیر کیا گیا ہے ۔ یہ کالونی نالہ جاگراں کے کنارے تعمیر ہے جہاں پختہ سڑک کی سہولت بھی میسر ہے ۔
کیاں شریف :۔ جاگراں ویلی کا ایک خوبصورت گاؤں ہے یہاں میاں مرزا عبد الرشید مرحوم کا مزار ہے ۔ جہاں پہ دور دراز علاقوں سے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ سجادہ نشینوں میں میاں محمد شفیع ایڈوکیٹ ایک متحرک سیاسی کارکن ہیں ۔
چوگلی: ۔ ایک صحت افزاء مقام ہے یہاں سے لیسوا بائی پاس سڑک گزرتی ہے ۔ یہ تاریخی مقام جو سطع سمندر سےسات ہزار دو سو انتیس فٹ بلند ہے اور اب سیون ٹو ٹو نائین کے نام سے مشہور ہے اور اس جگہ کو عام ان پڑھ لوگ بھی سیون ٹو ٹو نائیں کے نام سے پکارتے ہیں ۔
چلہیانہ: ۔ آزادی سے قبل مہاراجہ جموں و کشمیر کے مصاحب خاص راجہ شیر احمد خان ( مرحوم ) کی رہائش اسی گاؤں میں تھی ، ان کا قدیم رہائشی مکان بوسیدہ ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے ، لیکن اس کے کچھ حصے اب بھی باقی ہیں ۔ یہ تاریخی گاؤں مقبوضہ علاقہ ٹیٹوال کے سامنے واقع ہے جہاں آمنے سامنے کی آبادی کے لوگ ایک دوسرے کو بڑی حسرت بھری نگاؤں سے دیکھتے ہیں ۔ چند سال قبل یہاں افواج ایک دوسرے پہ گولیاں برساتی تھیں لیکن اب سی بی ایم کے تحت یہاں دریاے نیلم پہ پل تعمیر ہو چکا ہے ۔ معروف سماجی و سیاسی شخصیت علی شاہ بخاری اور سید اکبر شاہ ایڈوکیٹ کا تعلق بھی چہلیانہ سے ہے ۔
جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آزاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے ۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پائے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث منگلا ڈیم اپنی مقررہ عمر سے پہلے ہی بھر جائے گا ۔ جس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہونگے ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں کبھی بے شمار جنگلی حیات موجود تھے لیکن چودہ سالہ انڈین گولہ باری کے باعث نیلم ویلی کے جنگلات کا مجموعی طور پر پندرہ ہزار ایکڑ رقبہ نذر آتش ہوا ۔آتش ذدگی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی تیزی سے جنگلات کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس طرح خوبصورت جنگلی حیات کا عر صہ حیات تنگ ہو رہا ہے ۔ ان جنگلات میں بڑے پیمانے پر قیمتی جانور ناپید ہو رہے ہیں ۔
خوبصورت پرندوں میں دان گیر مرغ ذرین پہلے سے نایاب ہو چکے ہیں ، چکور بھی کم تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں بے شمار شفا بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جن کی بیرون ملک اور پاکستان میں بڑی مانگ ہے ان میں کٹھ ، پتریس ، مشک بالا ، رتن جوگ اور بٹ پھیوا وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ نیلم ویلی کے جنگلوں کی بلیک مشروم ( گچھی ) سیاہ زیرا کو بہت پسند کیا جاتا ہے ۔
