میرپور(پی آئی ڈی)چیف جسٹس عدالت العالیہ آزاد جموں و کشمیر جسٹس صداقت حسین راجہ اور ہائی کورٹ کے جج جسٹس خالد رشید چوہدری نے کہاہے کہ قانون و آئین کی بالادستی کے بغیر نہ تو کوئی معاشرہ اور نہ ہی کوئی ملک ترقی کرسکتا ہے۔قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سیآزاد کشمیر عدلیہ نے نہ پہلے کوئی کمپرومائز کیا اور نہ آئندہ کرئے گی۔عدلیہ اور وکلاء لازم و ملزوم ہیں دنوں کی عزت واحترام اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میرپور کی طرف سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب سے صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کامران طارق ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض جنرل سیکرٹری بار سردار فضل رازق ایڈووکیٹ
نے سرانجام دیئے۔سید شرافت حسین ایڈووکیٹ نے نعت شریف پڑھی اس موقع پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ فیصل مجید،جج احتساب کورٹ،ضلعی جوڈیشری، نائب صدر چوہدری عاشق حسین ایڈووکیٹ،جوائنٹ سیکرٹری فیصل عثمان ایڈووکیٹ، ممبران ایگزیکٹو کمیٹی جہانزیب علی ایڈووکیٹ، ساجد مسعود ایڈووکیٹ، راجہ نثار ایڈووکیٹ، سدرہ ذوالفقار ایڈووکیٹ،مہر النساء ایڈووکیٹ،وکلاء کی بڑی تعداد شریک تھی۔چیف جسٹس عدالت العالیہ آزاد جموں و کشمیر جسٹس صداقت حسین راجہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ آزاد کشمیر کی عدلیہ میں وہی جج لگے گا جس کو لوگ وکیل مانیں گے خواہ بڑا آدمی اس کو مانے یا نہ مانے ججز کے لئیکسی کی سفارش کی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا بطور وکیل جس بات کو برا سمجھتا تھا بطور جج اور چیف جسٹس ہائی کورٹ بھی اسے اسی طرح ہی برا ہی سمجھتا ہوں۔انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر کی عدالتوں میں 80 فیصد کیسز حکومتوں کے متعلق ہوتے ہیں جب ایک نائب قاصد اور اپوزیشن لیڈر عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو پھر چیخیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں۔چیف ایگزیکٹو کی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن ہماری کوئی مجبوری نہیں ہمارے سامنے ایک کتاب ہے جس کے مطابق ہم نے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ عدلیہ میں ترقیاتی اداروں کے چیئرمینوں کے حوالے سے فیصلہ کیاکہ اس کا چیئرمین ایک انجینئر یا ٹاؤن پلانر ہونا چاہیے لیکن افسوس کہ جب رولزبنائے گے تو گریجویٹ انجینئر کے ساتھ پانچ اور دس سالہ تجربہ کے ساتھ ہی ڈپلومہ ہولڈر کو بھی شامل کیا گیا۔جب ڈپلومہ ہولڈر گریجویٹ کے برابر ہوگا تو ایسا ہوتا رہے گا ان ناانصافیوں کے خلاف وکلاء کو آواز بلند کرنی چاہیے۔عدالتوں میں ضمانتوں کے کیسز 15 دنوں تک کر دیے جائیں گے لیکن کیسز کی کاز لسٹ کیسز کی عمر کے مطابق میرٹ پر ہی لگائی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ بطور چیف جسٹس اپنے ججز اورادارے کا تحفظ کرنا میری زمہ داری میں شامل ہے اس کے لئے وکلاء کو بھی عدلیہ کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، عدالت العالیہ کے جج جسٹس خالد رشید چوہدری نے کہاکہ آزاد کشمیر عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے۔عدلیہ نہ کسی سے کوئی ڈیکٹیش لتی ہیاور نہ آئندہ کسی سے لے گی۔ہر ادارے کی اپنی ڈومین ہے جو عدلیہ کی ڈومین میں آ کر مداخلت کرئے گا تو اس کوسزا بھگتنا پڑے گی چاہیے وہ کسی کا لاڈلا کیوں نہ ہو،اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں ججز کی تعیناتیاں خالصتاً میرٹ پر ہوتی ہیں اس حوالے سے آزاد کشمیر عدلیہ کے ججز کے درمیان بھی مکمل ہم آہنگی ہے اور تمام فیصلہ جات بھی میرٹ پر ہوتے ہیں۔کوئی ادارہ قانون و آئین سے بالا تر نہیں ہے قانون کی عملداری سب پر برابر ہے۔انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر عدالت العالیہ وکلاء کو اپنا حصہ سمجھتی ہے ہمارا ہمیشہ تعلق وکلاء سے ہوتا ہے۔وکلاء کو بھی چاہیے جب ادارے کی عزت واحترام پر کوئی حرف آئے تو انہیں اپنے ادارے کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے۔صدر بار کامران طارق ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکالت کا شعبہ بڑا مشکل ہے۔ آزاد کشمیر کے وکلاء اور جوڈیشری کا پہلے سے ہی مضبوط تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے کی عزت واحترام کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔وکلاء اور ججز قانون و انصاف کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کے لئے جو خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔اعلی عدلیہ سمیت عدالتوں میں فیصلہ جات انصاف اور میرٹ کے مطابق ہوتے ہیں جس سے دونوں اداروں کی عزت و وقار اور لوگوں کا اعتماد بھی بہت زیادہ ہے۔انہوں نے چیف جسٹس و جج عدالت العالیہ کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں شرکت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میرپور بار کا ایک بڑا نام ہے جج ہائیکورٹ جسٹس خالد رشید بھی اسی بار کا حصہ رہ چکے ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس صداقت حسین راجہ اور جج ہائیکورٹ جسٹس خالد رشید چوہدری نے بار ایسوسی ایشن کی تاحیات ممبر حاصل کرنے والے وکلاء میں سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے۔
0