0

گھن کے کیڑے! مصنفہ: حفصہ بٹ عدن

گھن کے کیڑے!
کیڑوں کے دیس میں رہنے والے اشرف الحیوان کتنے ہی ناطق کیوں نہ ہوں، کیڑوں کو دیس نکالا کیسے دیں گے۔ کہتے ہیں انسان جس کی صحبت میں رہتا ہے، اس کا گہرا اثر رکھتا ہے۔ ہم کیڑوں کے دیس میں رہتے رہتے ان کی طرح کھڑے ہو کر چلنے کی بجائے رینگنے لگے۔
پیٹ بھرنے کی خاطر ایک دوسرے کا خون چوسنا تو معمول ہوا۔ ضرورت پر ڈنک مارنا تو حق ٹھہرا۔
وہ تو ظاہر کو ڈستے ہیں۔ کھیتوں، پودوں، درختوں، حیوانوں، انسانوں کے ظاہر کو۔ اور انسان نما بچھو روح پر وار کرتے ہیں۔
اگر روح کا وجود کائنات سے اٹھا لیا جائے تو “جان ” نامی شے کا خاتمہ ہو جانے گا۔ روح وہ شے ہے، جو دکھائی نہیں دیتی، جو ہر سو دکھائی دیتی ہے۔ روح اس چیز کو کہتے ہیں، جس کے دم سے آواز ہے، سماعت ہے، آنکھیں ہے، روشنائی ہے، قوسِ قزح ہے، چاند، سورج، ستارے سیارے، کہکشائیں ہیں، خوشبو ہے، حرکت ہے، سوچ ہے اور دانائی ہے۔ روح نہ ہو تو زمین مُردوں کا گہوارہ ہو۔ لاشوں کا سمندر ہو۔ دنیا کی ہر ہر شے، روح کے دم سے وجود رکھتی ہے۔ جب روح مر جائے تو بصارت، سماعت، گویائی اور “حس” جیسی تمام اصطلاحات بے معنی ہو جاتی ہیں یعنی روح زندگی کا دوسرا نام ہے۔
انسانی بچھو اس روح پر ہی تو اپنا زہر انڈیلتے ہیں۔ جب روح سے کائنات ہے تو زہر اس کی موت ہے۔
گھن کے کیڑے نے دنیا کے سب سے بڑی سلطنت کے بادشاہ اور اللہ کے برگزیدہ بندے سلیمان علیہ السلام کی لاٹھی کو نہیں بخشا تھا تو میری اور آپ کی لاٹھی کی کیا اوقات۔
یہ دستور ہے.جس کا روئے زمین پو جنم ہوا، اس کو گھن کے کیڑوں سے فرار نہیں. یہ کیسے ہو سکتا ہے کیڑوں کے دیس میں رہتے ہوئے ان کے وجود کو نظر انداز کیا جاسکے ۔ بلا شبہ اس سے مشکل کام دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ آپ جس مسکن کے باسی ہوں وہ کسی اور کے نام ہو تو آپ وہاں اپنی مرضی نہیں چلا سکتے، خود سے مسکن میں تبدیلیاں نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کر سکتے تو سب سے پہلے دنیا کے سب سے عظیم انسان محمد ابنِ عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے۔ ایک ایک کافر کو پکڑ کر کلمہ پڑھاتے۔ ہر دشمن کو اس کی بدتمیزی کا جواب دیتے۔ خاموش ، صبر کے گھونٹ پی کر، ضبط اور بردباری سے ہر گز غمگین نہ ہوتے۔ کیوں؟ کیونکہ دلوں پر زور نہیں چلتا۔ کسی کو پلٹںا انسان کے بس کی بات نہیں۔ جن کے مقدر میں آپ سے مخالفت لکھی ہے، وہ مخالفت ہی کرے گا۔ جس کو ڈسنا ہے وہ ڈسے گا چہ جائے کہ اس کا دل ڈسنے کو نہ چاہے۔
کبھی آپ نے سوچا کہ جنگل میں جا کر آپ اپنا قانون کیوں نہیں چلا سکتے۔ کیونکہ وہ حیوانوں کا گھر ہے۔ حیوانوں میں سمجھ بوجھ نہیں، علم اور عقل نہیں۔ یوں ہی کیڑوں کے دیس سے گھن کے کیڑے کا خاتمہ بھی ناممکن ہے۔
زندگی کی کتاب کو کتابی کیڑا لقمہ لقمہ کر کے کھائے جا رہا ہے۔ انسانی گھن کے کیڑے روحوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے جس لاٹھی سے آپ سہارا لیتے ہو، اسے کوئی توڑ نہیں سکتا، اسے گھن نہیں لگ سکتا۔ بے شک ہر شے کو لمحہ لمحہ موت کی طرف دھکیلنے والے کیڑے آس پاس موجود رہتے ہیں۔
ہر وہ بے روح وجود جسے ہم دفنا دیتے ہیں اسے بھی ختم کرنے والے نفوس اللہ نے بنائے ہیں۔ ہر شے کو موت ہے۔ ہر شے کو فنا ہے۔
اپنے آس پاس دیکھیں۔ گھن کے کیڑے موجود ہیں، تھے اور رہیں گے۔ آپ ان سے چھپ نہیں سکتے، بھاگ نہیں سکتے۔ آپ کو ان کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ زخمی روح کے ساتھ، چھلنی وجود کے ساتھ۔ یہ صرف آپ کی کہانی نہیں۔ ہر نفس کی کہانی ہے۔ ہر زندگی کا گھن اس کے مطابق ہے۔ آپ کی لاٹھی میں چھید ہوں گے، آپ کی لاٹھی پہ گھن لگ کر رہے گا۔
مصنفہ: حفصہ بٹ عدن

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں