خواتین ملازمین اور صحافیوں پر بہیمانہ تشدد کی شدید مذمت سمعیہ ساجد, حق اور سچ کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا
مظفرآباد (بی بی سی)مرکزی چیئرپرسن مسلم کانفرنس خواتین ونگ اور چیئرپرسن کشمیر ویمن الرٹ فورم (کواف) سمعیہ ساجد نے ایم این سی ایچ (MNCH) پروگرام کی خواتین ملازمین پر پُرامن احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے کیے جانے والے وحشیانہ لاٹھی چارج اور کوریج کرنے والے صحافیوں پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو جمہوری اصولوں، انسانی وقار اور آزادی اظہار رائے پر کھلا حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نہ صرف مظلوم خواتین کے ساتھ وعدہ خلافی کر رہی ہے بلکہ آزادی صحافت کو بھی دبانے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے۔ ایم این سی ایچ پروگرام کے تحت کام کرنے والی سینکڑوں خواتین ملازمین نے مظفرآباد میں اپنے دیرینہ مطالبات، خاص طور پر مستقلی کے حق میں احتجاج کیا۔ یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن تھا۔ خواتین اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے، آئینی و قانونی طریقے سے اپنی آواز حکام بالا تک پہنچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مگر بدقسمتی سے حکومت نے ان کے جائز اور آئینی حق کو تسلیم کرنے کے بجائے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان پر لاٹھی چارج کیا، جس کے نتیجے میں کئی خواتین زخمی ہو گئیں۔سمعیہ ساجد نے کہا کہ یہ سراسر ظلم ہے کہ وہ خواتین، جو برسوں سے انتہائی قلیل تنخواہ پر خدمات انجام دے رہی تھیں اور جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے محکمہ صحت کے پروگرامز کو کامیاب بنایا، انہیں بدلے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظلوم خواتین ریاست کا فخر ہیں اور ان کے ساتھ اس قسم کا ناروا سلوک ریاستی نااہلی اور بے حسی کی انتہا ہے۔سمعیہ ساجد نے صحافیوں پر تشدد کے واقعے کو آزادی اظہار رائے پر ایک سنگین حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا ورکرز ریاست کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں نے ہمیشہ حق اور سچ کی آواز کو بلند کیا ہے، کڑے حالات میں بھی عوام کے مسائل اور حقائق دنیا کے سامنے رکھے ہیں، اور آج جب وہ مظلوم خواتین کی آواز بنے تو انہیں بھی ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔صحافیوں پر لاٹھی چارج کرنے کا مقصد سچائی کو دبانا ہے، مگر میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ حق اور سچ کی آواز کو لاٹھی چارج یا ظلم سے دبایا نہیں جا سکتا۔ایم این سی ایچ پروگرام کا آغاز خواتین اور بچوں کی صحت بہتر بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت ہزاروں خواتین کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا، جنہوں نے دور دراز علاقوں میں صحت عامہ کی خدمات پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ برسوں کی محنت اور قربانیوں کے باوجود اب تک ان ملازمین کو مستقل نہیں کیا گیا۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر ان خواتین کے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ موجودہ حکومت نے بھی اقتدار میں آنے سے قبل ان خواتین سے وعدے کیے تھے، مگر آج وہ وعدے وفا ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، بلکہ مطالبات اٹھانے پر انہیں ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سمعیہ ساجد نے کہا کہ آج کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور جب بھی ریاستی ظلم یا بدانتظامی کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے تو صحافی اپنے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر سچائی کی جنگ لڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی قربانیوں کو تاریخ سنہری حروف سے لکھے گی اور ظلم کی یہ داستانیں ہمیشہ کے لیے حکمرانوں کے چہروں پر بدنما داغ بن کر رہیں گی۔ہم اپنے بہادر صحافی بھائیوں اور بہنوں کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے گولیوں، لاٹھیوں اور تشدد کا سامنا کرنے کے باوجود قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔ وہ عوام کی امیدوں کے چراغ ہیں اور ان کے عزم کو کوئی طاقت متزلزل نہیں کر سکتی انہوں نے مزید کہا کہ اگر مظلوم خواتین اور متاثرہ صحافیوں کو فوری انصاف نہ ملا تو اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جبر کے خلاف ہر محاذ پر لڑیں گے اور مظلوموں کے حق کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ہماری جدوجہد خواتین کے روزگار، عزت نفس اور صحافت کی آزادی کے تحفظ کے لیے ہے۔ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
