“صدف بنتِ اظہار”
“نسائی شاعری کی ایک توانا آواز”
تحریر و تحقیق:اشعرعالم عماد
۔
صدف بنتِ اظہار کراچی میں پیدا ہوئیں اور کراچی سے ہی اپنے تمام تر درسی مراحل مکمل کئے۔صدف بنت اظہار کو بچپن ہی سے شعر و ادب سے گہرا شغف حاصل رہا کیونکہ صدف بنتِ اظہار نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ گھرانہ علم و ادب کے معتبر خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا انہی میں سب اہم نام نامور شاعر جناب انور دہلوی کے صاحبزادے اور صدف بنتِ اظہار کے والد محترم جناب پروفیسر اظہار حیدری کا ہے جن کی ادبی خدمات کا ہر وہ شخص جو انہیں جانتا ہے مترادف ہے اگر یوں کہا جائے کہ ان کے دور کا کوئی بھی ایک شخص جو شعر و ادب اور صحافت سے تعلق رکھتا تھا پروفیسر اظہار حیدری کی محبت شفقت سے محروم نہیں تھا بےپناہ شرافت محبت اور اپنے کام سے پیار کرنے والے اس عظیم ہستی کو آج بھی سب بہت محبت و عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔ ایسے کہنہ مشق ادیب و صحافی کے پرچم کو بلند رکھنے کا عظم اور حوصلہ وہی کرسکتا ہے جو ان کی ادبی وراثت کا حقیقی وارث ہو اور یہی حوالہ ہمیں صدف بنتِ اظہار تک لے جاتا ہے صدف بنتِ اظہار نا صرف خود ایک بہت عمدہ شاعرہ ہیں بلکہ اپنے والد کی طرح ایک کہنہ مشق ادبی خدمتگار بھی ہیں انہوں نے اپنے دادا کے زمانے کی ادبی تنظیم “مکتبہ حیدری” جسے پروفیسر اظہار حیدر نے والد کی وفات کے بعد فعال رکھا پھر اُن کے انتقال کے بعد اس کی باگ دوڑ بنتِ اظہار نے سنبھالی اور اپنے اسلاف کے مشن کو آگے لے جانے کے عظم کا اعادہ کیا اور آج کئی سالوں کی جہدِ مسلسل نے اس ادارے کو کراچی کا ایک حقیقی، معتبر اور فعال ادبی حوالہ بنادیا ہے اور اس کا تمام تر سہرا صدف بنتِ اظہار کے سر جاتا ہے۔
مارچ 2024ء ماہ جہانِ رنگ عالمی کا سالنامہ نمبر ہے اس شمارے کے معروف سلسلہ”داستانِ فن”میں اس ماہ ہماری مہمان کراچی کی معروف نمائندہ شاعرہ اور نسائی ادب کی توانا آواز صدف بنتِ اظہار صاحبہ ہیں۔ ان کی شخصیت کا انتخاب یقیناً اس سالنامہ کو اور مزید یادگار بنا دے گا۔احقر کافی عرصہ سے صدف صاحبہ کی ادبی سرگرمیوں کو مختلف سوشل پلیٹ فارم کے ذریعہ دیکھتا آرہا ہے صدف بنتِ اظہار افسانہ نگار، کالم نگار اور ادبی منظر ناموں کی مبصر کی حیثت بھی رکھتی ہیں مگر ۔۔ ان کی عام فہم ، شستہ اور چسُت پیمانوں سے گندھی خوبصورت شاعری آج ہمارا موضوعِ گفتگو ہے۔
میں نے بہت سے مضمون نگاروں کو ادبی منظر ناموں میں معروف شخصیات کے لیئے لفظ نمائندہ شاعر یا شاعرہ کا خطاب لکھتے دیکھا ہے میرے نزدیک یہ خطاب علامتی ہونے کے بجائے حقیقی ہونا چاہیئے۔ یعنی اگر ہم کسی ادیب یا شاعر کو یہ خطاب دیں تو اس میں عملاً یہ خواص موجود بھی ہونا چاہیں۔
“میں نے صدف بنتِ اظہار کو “نمائندہ” شاعرہ محض القابی طور پر نہیں لکھا بلکہ ان کی شاعری کو پڑھ کر یہ خطاب دیا ہے میں نے صدف بنتِ اظہار کی شاعری میں ایک سعادت مند بیٹی، بہن، بیوی، اور پھر خود ایک ماں کے تصور کو ظہور پذیر ہوتے دیکھا ہے”
صدف بنتِ اظہار کی شاعری کا محور ہر وہ آفاقی رشتہ ہے جو کائنات سے جڑا ہے جسے آقائے دوجہاں رسول ﷺ کی بات ہو تو کہتی ہیں۔۔
سیرتِ مصطفےٰ ہے خود قرآں
لفظ لفظ اور بات آقا کی
صرف میں ہی نہیں غلام انکی
ساری ہے کائنات آقا کی
ہو ثنا گوئی یہ صدف کی قبول
پیش کرتی ہوں نعت آقا کی
” وہ تجلیات کے موجبات
وہ غیاثِ در نشیں صفات
وہی مرسلیں وہی مرسیلات
وہی خدا کے مرکزِ التفات
نہ جسے کبھی ہے زوال ہی، صلو علیہ والہ”
*ماں سے محبت فطری عمل ہے مگر اس سے عقیدت کا اظہار ہر شخص کے لیئے اتنا آسان نہیں ہوتا بنتِ اظہار ماں کے تقدس اور اس کی عظمت کو شعری پیمانے میں جسطرح سماتی ہیں وہ قابلِ تحسین ہے*
ان کی ایک نظم ماں سے اقتباس ملاحظہ ہو۔۔۔
“کونسی روشنی لے کر میں تجھے ڈھونڈوں ماں
کونسی کاہ کشاں جا کے تجھے دیکھوں ماں”
“حالِ دل کس کو سناؤں ، تُو میسّر ہی نہیں
اُڑ کے آ جاؤں ترے پاس مگر پر ہی نہیں ”
کاش! دوبارہ مقدّر میں ہو ماں کی آغوش
گود میں سر ہو مرا ، اور نہ ہو دُنیا کا ہوش
اپنی آنکھوں سے لگایا کروں طُوری پاپوش
کوکھ میں اسکی سما دُوں میں یہ خاکی تن و توش
ماں کی تُربت میں اِلٰہی! تُو اُجالا کر دے
اور سخن اپنی صدف کا گُل و لالہ کر دے”
*صدف بنتِ اظہار کی شاعری میں عشقِ حقیقی بھی ملتا ہے اور عشقِ مجازی بھی۔۔ یہ شعر ملاحظہ ہوں*
مسندِ عشق پہ سلطان بنا بیٹھا ہے
وہ محبت کا نگہبان بنا بیٹھا ہے”
” تمھارے واسطے سب کچھ صدف نے کردیا قرباں
جو چاہو اس کے جذبے کو بھی تم بے نام کر دینا”
“چاہ کر بھی بھلا نہیں سکتے
عشق میں ایک یہی مصیبت ہے ”
*صدف بنتِ اظہار کی شعری خصوصیات میں انسانی کیفیات کا اظہار اپنی پوری روح کے ساتھ نظر آتا ہے مثلاً صدف کے پاس محبت،یاس، رنج و غم ،دکھ درد ہجر و فراق اور احساسات کے منفرد اظہاریے موجود ملتے ہیں وہ اپنی کیفیات کو شعری سانچے میں ڈھالنے کے فن سے خوب آشنا ہیں*
کسی کی یاد کے صحرا نما سرابوں میں
شب فراق مسلسل رہی عذابوں میں
تمام رات ہی اشکوں کی اک رہی برسات
سویرے ڈال گئے رنگ کچھ گلابوں میں
*عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین شاعرات کی شاعری میں موسیقت بہت کم کم نظر آتی ہے اس پر ٹھوس اعتراض کی دلیل یہ بھی ہے کہ آج تک کوئی خاتون شاعرہ سوائے رخسانہ نور کے جنہوں نے فلمی گیت لکھے کوئی دوسری شاعرہ نے فلمی نغمہ نگاری پر کوئی کام نہیں کیا۔اس معاملے میں صدف بنتِ اظہار کا دوسری کئی شاعرات سے مختلف ہے میں ان کی شاعری میں رنگوں کو بولتے سنا ہے،خاموشی کو گنگناتے دیکھا ہے گوکہ صدف بنتِ اظہار کی شاعری معاشرتی رویوں کی عکاس ہے جس میں ایک گھریلو لڑکی نمایاں نظر آتی ہے مگر ان کی شاعری میں موسیقیت کے ایک نئے انداز کو خارج ازمکان قرار نہیں دیا جاسکتا*
“آہیں کسی کے نام پہ بھرتی نہیں ہوں میں
تا عمر کے فراق سے ڈرتی نہیں ہوں میں
جس موڑ پر وہ چھوڑ کے مجھ سے ہوا الگ
بھولے سے بھی وہاں سے گزرتی نہیں ہوں میں”
“ایسے دل سے اُتر گیا کوئی
زندگی سُونی کر گیا کوئی”
“ایک مدّت ہوئی، کہ بگڑا تھا
تجھ کو دیکھا، سنور گیا کوئی
آج بھی دونوں ساتھ ہوتے ہم
پر زمانے سے ڈر گیا کوئی”
“گنگنائیں، تو لوگ جلتے ہیں
مسکرائیں، تو لوگ جلتے ہیں”
ہم کسی سے کیا ہوا وعدہ
گر نبھائیں، تو لوگ جلتے ہیں
*صدف کی شاعری میں ان کی زندگی کی ایک جہدِ مسلسل نظر آتی ہے وہ زندگی کے نشیب و فراز کے اظہاریہ میں اپنا کمال رکھتی ہیں*
“جو تم چاہو تو تم ہم پر یہی انعام کر دینا
ہماری شام غم کو زندگی کی شام کر دینا”
“ہمیں بالکل نہیں بھاتا چلن یہ پیار کا صاحب
خوشی کی ساعتوں کو لمحہء دشنام کر دینا”
ان کی ایک نظم عیب و ہنر سے اقتباس ہے دیکھیں
وہ اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں۔۔
“تجھے میرا ہر ہنر عیب لگتا تھا ۔۔۔
میری کھنکناتی ہنسی
میرا پیار ، میرا خلوص
میرے سارے الفاظ۔۔۔۔
میرا زورِ قلم
میری لفظوں سے دوستی۔۔۔۔
پیار، التفات، محبت برتنا۔۔۔۔
تجھے یہ سب عیب لگتے تھے ناں….؟
دیکھ!
زرا غور سے دیکھ
میرے ہم نفس!
آج میں بزم سخن کی مسند نشیں ہوں
ہر حلقہِ اداب میں معتبر ہوں۔۔۔۔
*صدف بنت اظہار کی شاعری معاشرے سے جڑی ہر عورت کی کہانی ہے وہ بہت جلد شعری حلقوں میں نسائی شاعری کی ایک توانا آواز بن کر ابھری ہیں ان کی شاعری ہر اس عورت کو دعوتِ جہد دیتی ہے جو خود کو گھر کی چار دیواری میں قیدی محسوس کرتی ہے بنتِ اظہار چادر اور چار دیواری کے تقدس کا نہ صرف احترام کرتی ہے بلکہ اسی میں رہ کر دوسری خواتین کو اپنی پہچان بنانے کا راستہ بھی دکھاتی ہے صدف کی شاعری میں وارث شاہ کی ہیر ضرور موجود ہے مگر وہ اپنی خاندانی روایات اور مریادہ سے کبھی خود کو بے بہرہ نہیں ہونے دیتی۔۔۔ اور یہی عفت و عظمت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے جو اس معاشرے میں کسی رول ماڈل سے کم نہیں۔۔۔*
