آپا منزہ جاوید
اسلام آباد
(رحمت بنیں زحمت نہیں)
جیسا کہ ہماری روایت ہیں ہم ایک دوسرے کے گھر خیر خریت پوچھنے ‘شادی بیاہ ‘فوتگی پر جاتے ہیں ۔
یا ویسے ہی اپنے رشتے داروں کے گھر جاتے ہیں جب بچوں کو اسکول سے چھٹیاں ہوں
یا عید تہوار ہو
تو یاد رکھیں مہمان نوازی کے جہاں اصول اور طریقے ہیں ایسے ہی مہمان بننے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔جب بھی کسی کے گھر جائیں پہلے ان کو بتائیں ہم آ رہے ہیں بتانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ان سے کہیں
اگر آپ کی کوئ اور مصروفیت نہیں تو کیا ہم آ سکتے ہیں۔
اگر وہ اجازت دیں تو ایک یا دو دن کے لیے مہمان بنیں…
کیونکہ ہماری روایات ہیں کہ ہم کسی کے گھر جاتی مرتبہ ان کے لیے کوئ تحفہ لے کر جاتے ہیں ۔
جیسے کیک ‘مٹھائ ‘پھل ‘وغیرہ تحفہ لے کر جانا بھی چاہیے۔ لیکن تحفہ ایسا ہونا چاہیے جو میزبان کے کام آ سکے ۔یہ نہیں کہ جو ذہن میں آیا یا آسانی سے میسر ہو خرید لیا ۔ جب آپ خرچہ کر رہے ہیں تو ایسی چیز خریدیں جو لینے والے کے لیے خوشی کا باعث بنے۔ دیکھا جاتا ہے لوگ خوشی کے موقعے پر ٹوکریاں بھر بھر پھل یا مٹھایاں لے جاتے ہیں جو استعمال میں نہیں آتے نہ ہی میزبان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں ۔بعض اپنی شو ‘شا’ یا بڑائ کے لیے کسی اونچی بیکری سے ڈھیروں ڈبے بسکٹ کے یا تین چار کیک لے جاتے ہیں جن کا مصرف کچھ نہیں ہوتا بلکہ رزق ضائع جاتا ہے ۔
خرچہ تحفہ کے لیے ایسا کریں جو کسی کے لیے خوشی’اور آسانی کا باعث بنے ۔
جیسے کوئ ںچے کی پیدائش کی خوشی ہے تو بچے کے استعمال کے مطابق خریداری کریں ۔اگر کسی کی شادی میں شرکت کر رہے ہیں تو بچے بچی کی ضرورت کے مطابق خریداری کریں۔۔
اگر ایسے ہی ملنے جارے ہیں تو گھریلو استعمال کی چیزیں ان کے لیے خریدی
جیسے گرمی ہے تو موسم کے مطابق ان کے کپڑے ( سوٹ) خرید سکتے ہیں بیڈ شیٹ چائے کے کپ کا سیٹ’ پانی پینے کے گلاس کا سیٹ یا کھانا کھانے کے لیے پلیٹیں وغیرہ
اگر موسم سرما ہے تو گرم چادریں’سوئیڑ ‘سکارف’ جرابیں’
اگر زیادہ گنجائش ہے تو ہیڑ لے جائیں۔۔ یہ ایسے تحفے آپ کی آمد کی یاد بن کر ان گھر رہیں گے آپ ان کے دل میں زندہ رہیں گے
اور اگر آپ کوئ خریداری نہیں کرنا چاہتے ہو تو ان کے لیے
کچھ پرائز بانڈ خرید لیں اور ان کو تحفے میں دیں۔ ہو سکتا ہے کبھی ان پر قسمت مہربان ہو جائے اور ان کا انعام نکل آئے
اور ایک بات پیسے یا تحفے کبھی کسی بچے کے ہاتھ میں مت دیں بڑوں کو دیں تاکہ بچوں کو کسی کچھ لینے کی عادت نہ پڑے ۔
اور ایک بات اور ذہن میں رکھیں۔ کہ جن کے گھر آپ جارہے ہیں ان کے گھر کوئ ایسابزرگ تو نہیں جس کی خاتون خانہ نے دیکھ بھال کرنی ہے یا خاتون خانہ کے اپنے بچے تو چھوٹے نہیں جن کی ذمہ داری نہگداشت اس پر ہے ۔
بالا وجہ کسی کے گھر زیادہ دنوں کے لیے مت ٹھہریں اگر ٹھہریں۔ تو خاتون مہمان کو ان کے گھریلو کام میں ہاتھ باٹنا چاہیے۔مہمان کی عزت اپنی جگہ لیکن اپنائیت اپنی جگہ ہے جب آپ خاتون خانہ کا اس کے کچن کے کام میں ہاتھ بٹائیں گی تو میزان خوش ہو گی وہ آپ کو بوجھ نہیں سمجھے گی اور اگر گھر میں کوئ بزرگ ہیں تو بزرگوں کے پاس بیٹھیں ان سے باتیں کریں
آپ جس کے گھر جاتے ہیں وہاں کے امانت دار بنتے ہیں۔ کوشش کیجیئے کہ آپ کی وجہ سے کسی کوئ تکلیف نہ ہو آپ سے کوئ بےزار نہ ہو مہمان جتنا پھولوں کی طرح رہے گا میزان اتنا ہی اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرے گا اور آپ کو بوجھ نہیں سمجھے گا ۔
ٹھیک ہے میزبان آپ کو کچھ نہیں کہ رہا وہ دل جان سے جو توفیق ہے آپ کی مہمان نوازی کر رہا ہے۔
لیکن آپ کو سوچنا اور سمجھنا ہے کہ کیا ان کے گھر کی آمدنی کے لحاظ سے ان کے حالات ٹھیک ہیں۔
یا ان کے گھر کے خرچے پر آپ بوجھ تو نہیں ہیں اگر کسی مجبوری کے تحت آپ کو زیادہ دن رہنا ہے
تو آپ گھر کے استعمال کی کوئ نہ کوئ چیز لاتے رہیں اپنے دل کو ان کی میزبانی کی طرف سے نرم رکھیں خوش رہیں آپ کا رویہ اچھا ہو تاکہ میزبان کا دل آپ کی طرف سے افسردہ نہ ہو بلکہ کوشش کریں آپ کی رفاقت ان کے لیے خوشی اور سکون کا باعث بنے ۔۔۔بلاوجہ ان کے معملات میں دخل نہ دیں ۔دیکھیں گھر میں اگر کوئ ناراض ہے کچھ کشیدگی ہے تو اپنے طرز عمل سے خوش گفتاری سے ان کی آپس کی ناراضگی ختم کروا دیں ایک بہترین اور یادگار وقت بن کر ان کے گھر سے نکلیں اور آتی مرتبہ میزبان کو بہت دعائیں دیں
اور ان کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیں اوران کی میزبانی کا شکریہ بھی ادا کیجیئے ۔
اور کسی کے گھر خدا نخواستہ کوئ ہو گئ ہے تو جاتے ہی لواحقین پر توجہ دیں ان کی دل جوائ کریں ان کو کچھ کھلا پلا دیں کیونکہ وہ اس وقت شدید دکھ سے گزر رہے ہوتے ہیں وہ اپنا اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے تو آنے والوں پر لازم ہے کہ وہ لواحقین کا خیال کریں نہ کے تماشبین بن کر ان کو روتے دیکھتے رہیں اور آپس میں باتیں کرتے رہیں یہ غم کی گھڑی بہت مشکل ہوتی ہے اور یہ وقت سب ہی آنا ہوتا ہے یہ سوچ کر ان کے گھر کی ذمہداری لیں ۔نہ کے جو دکھ میں ہیں وہ آپ کو کھانا کھانے بستروں کا پوچھیں ۔میت والے گھر میں سب ہی رو رو کر نڈھال ہوئے ہوتے ہیں ان کے ذہن اور کاموں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے وہ تو اپنے بچھڑ جانے والے والی کو آخری مرتبہ زیادہ سے زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ایسے میں آپ کو چاہیے ان کو جتنی توجہ دیے سکتے ہیں دیں یہ انسانی حقوق ہیں انسان کو الله تعالی نے بہت خوبیوں سے نوازہ ہے خرابیاں تو ہماری خود کی پیدا کی ہوئ ہیں
0