0

پاکستان کی بربادی خستہ خالی کا ذمہ دار کون۔ تحریر: آپا منزہ جاوید اسلام آباد

آپا منزہ جاوید اسلام آباد
(پاکستان کی بربادی خستہ خالی کا ذمہ دار کون)
جب بھی کوئ خاندان’ قبیلے یا ملک’ پر تبای بربادی آتی ہے. تو اس کی بربادی میں سب افراد کا ہی قصور ہوتا ہے ۔۔ہاں کسی کا کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ لیکن قصور وار تو سب ہی ہوتے ہیں ۔۔۔
اسی طرح ہمارا ملک عزیز جو دن بدن پست خالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور ہم اپنی عادت سے مجبور دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے ضمیر کو یہ کہ کر کہ میں کیا کر سکتا’ سکتی’ ہوں تھپکی دیے کر سلا دیتے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے ہم سب ہی خود کو بے گناہ ‘ مظلوم اور بےبس سمجھتے ہیں. ہم سمجھتے ہیں۔ میں کچھ بھی نہیں ۔
جبکہ ہر فرد کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ جیسے دیوار بناتے وقت اینٹ کے ساتھ اینٹ جڑے تو دیوار بنتی ہے۔ ایسے ہی ہم سب ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں ۔
ملک کو چلانا ترقی کی طرف گامزن کرنا کسی اکیلے بندے کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ مل کر محنت ‘کوشش’ جدوجہد’انتھک محنت کریں گے تو ملک ترقی کرے گا ۔
ان ملکوں کی طرف نظر دوڑائیں جو پہلے کچھ بھی نہیں تھے کیسے انہوں نے ترقی کی ؟ ان کی ترقی کی وجہ تلاش کریں ۔
اپنی غلطیوں پر نظر ڈالیں اپنے کردار کو درست کریں ۔ ترقی میں حصہ ڈالنا ہے۔ ملک کو تنزلی سے نکالنا ہے۔ تو ہنر سیکھیں ۔گھر کا ہر فرد کام کرے جیسے ہر فرد کو الله نے پیٹ لگایا ہے تو اس کے بھرنے کا انتظام بھی خود کریں ۔دوسرے پر بوجھ مت بنیں۔ جب الله نے دو ہاتھ دیئے ہیں تو ان سے محنت کریں ۔
دیکھا گیا ہے کہ گھر کے اگر دس افراد ہیں تو دو تین کماتے ہیں۔ باقی فارغ رہتے ہیں ۔یہی عمل ہمارے ملک کو پستی کی طرف لے کر جا رہا ہے مفلسی غربت بڑھتی جا رہی ہے
جہاں کارخانے’فیکڑیاں لگی ہوئ ہیں۔ ان کو بجلی فراہم نہیں کی جاتی جس سے مزدور مزدوری اچھی نہیں کر پاتے ۔چاہیے تو یہ کہ جن وسائل سے ملک ترقی کر سکتا ہے ان پر توجہ کی جائے کارخانوں فیکٹریوں کو اضافی گیس بجلی فراہم کی جائے تاکہ ہمارے کارخانے فیکٹریاں چلتی رہیں ۔کسانوں کو سہولیات فراہم کی جائیں ان کو بیج کھاد سستے داموں دیں ۔ان کی فصلوں کو اچھے داموں خریدیں بلکہ جو کسان زیادہ فصل تیار کرے اسے کوئ انعام اسناد دینی چاہیے ۔
اور سب سے اہم بات اپنے کارخانوں اور فیکٹریوں میں تیار ہونے والی چیزیں جن کو دوسرے ملکوں میں فروخت کرنا مقصد ہے اس کا میعار بہتر ہو تاکہ دوسرے ملک آپ کی بنائ گئی چیزوں کی کوالٹی کو پسند کریں اور شوق سے خریدیں ۔
ہماری چیزوں کا معیار میعاری نہ ہونے کی وجہ سے باہر کے ملکوں نے ہم سے مال خریدنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ کبھی ہماری کاٹن ‘تولیے’ اسٹیل کا سامان’فٹ بال اور چاول اور کچھ پھل خصوصا آم باہر بہت پسند کیے جاتے تھے ۔
اب آہستہ آہستہ ہماری چیزوں کی مانگ تقریبا ختم ہوتی جارہی ہے۔
وجہ کوالٹی اچھی نہیں وقت پر مال تیار نہیں ۔۔جب ملک میں زدمبالہ ہی نہیں آئے گا تو ملک کیسے ترقی کرے گا ۔؟
ہماری چیزیں میعاری ملاوٹ سے پاک اعلی کوالٹی کی ہوں گی اور ہمارے تاجر سچ بولیں گے تو ہمارے ملک کا نام اونچا ہو گا ۔
سب سے پہلے ہمیں اپنے دیس کے باسیوں کو عادت ڈالنی چاہیے کہ جب کبھی کسی ملک میں جائیں اپنے ملک کا تیار کردہ مصنوعات کپڑا جوتے بیگ تولیے ساتھ لے کر جائیں دوسروں کو تحفے میں دیں۔ اپنے ملک کا نام بڑھائیں۔ اپنے اخلاق پر توجہ دیں۔ملک کا سربراہ ملک کا باپ ہوتا ہے انہیں چاہیے ملک کی ترقی کے لیے عوام کو سہولیات فراہم کریں تاکہ سب دل لگا کر محنت کریں ۔ اور ایسا کوئی قانون بنائیں کہ چھوٹی عمر سے ہی سکولوں میں بچوں کو ہنر سکھایا جائے۔ مقصد ان کو ذہین بنانا ہے فائدہ
مند بنانا ہے ان کو طوطا مت بنائیں کہ جو کتابوں میں ہے یاد کرو پاس ہو جاو۔
علم کے ساتھ ساتھ ہنر کی بہت ضرورت ہے ۔۔
ہم لوگ غریب نہیں ہم عقلی طور پر فارغ ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے رزق میں برکت نہیں کیونکہ ہم ہاتھ دھو کر بسم اللہ پڑھ کر کھانا نہیں کھاتے ۔
ہم باہر ہوٹلوں کے کھانے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں مکئ ‘باجرہ’ جو ‘ہر طرح کی فصل تیار ہوتی ہے ہم دیسی خوراک سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم غیر ملکی لباس پہنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کھانوں کے دلدادہ ہو گے ہیں ۔ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اپنے ملک کی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں ملاوٹ’ جھوٹ’ بےایمانی’ناپ تول میں کمی’ اور بداخلاقی سے توبہ کرنی ہو گی ۔ہم تو دوائیوں ‘دودھ,تک میں ملاوٹ کرتے ہیں جس سے ہمارے بچے جو ہمارا مستقبل ہیں صحت مند نہیں ۔کسی ملک کی بربادی تباہی میں قوموں کے کردار کا بڑا حصہ رہا ہے جو قوموں جھوٹ ‘بےایمانی ‘ملاوٹ ‘اور اخلاقی طور پر کمزور ہوتی ہیں وہ ناکامی بربادی سے ضرور دوچار ہوتی ہیں ۔۔۔
اسلام میں زکوٰۃ’ صدقات’ خیرات’ کا جو حکم ہے ہم اس پر بھی عمل پیرا نہیں ۔
یاد رکھیں پچھلی قوموں پر تباہی بربادی کا سبب ان کے برے اعمال تھے اگر آج سے ہم سب اپنے اپنے اعمال درست کر لیں تو ہم برے حالات سے بچ سکتے ہیں ورنہ جو پچھلی قومیں عزاب کا مزہ چکھ چکی ایسا نہ ہو وہی عزاب ہمارا مقدر بنے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں