بڑھتی آبادی۔۔۔۔۔ام المصاٸب
وسیم شاہین (رحیم یار خان)
شو مٸی قسمت سے وطنِ عزیز میں بیروزگاری اور غربت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا ہے۔ اگرچہ اس کی وجوہات بہت ساری ہیں مگر وطنِ عزیز کی آبادی میں بے تحاشہ اضافے کو ہماری زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ اگرچہ ایک طبقہ بڑھتی ہوٸی آبادی کو سِرے سے کوٸی مسٸلہ نہیں سمجھتا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں موندے اس طبقے پہ یہ شعر صادق آتا ہے;
؎ میرا خیال تھا کہ وہ میرا غم سمجھتا ہے
جو کم سمجھنے کی حد سے بھی کم سمجھتا ہے
کسی بھی ملک کی پائیدار ترقی اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ آبادی کو وسائل کے مطابق کنڑول میں رکھا جائے۔ اس پسِ منظر میں اگر وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہ بیک وقت مختلف چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ جن میں سے ایک بڑا مسٸلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک اور دنیا کی کل آبادی کا تین فیصد ہے۔ چین، انڈیا، امریکہ اور انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ ان میں سے پاکستان کی آبادی میں اضافے کی رفتار سب سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ساٹھ کی دہائی کے بعد سے پوری دنیا میں آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور 2020 میں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ 1962 اور 1965 کے درمیان یہی شرح سب سے زیادہ 2.1 فیصد رہی تھی۔ جہاں پوری دنیا میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی، وطنِ عزیز میں یہی شرح 2.55 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اگر اسی شرح سے افزائشِ نسل کا یہ رحجان جاری رہا تو 2050 تک مملکتِ خداداد کی آبادی دو گنا ہو جائے گی۔
بڑھتی ہوئی آبادی مختلف سماجی برائیوں کو جنم دے رہی ہے جن میں کم عمری کی شادیاں، چاٸلڈ لیبر و بچوں کا استحصال، بے روزگاری، ناخواندگی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی شامل ہیں۔ وطنِ عزیز میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم اور بے قابو آبادی ملکی وسائل بالخصوص محدود قدرتی وسائل پر سخت دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت کو کم کر رہی ہے۔ اس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ملکی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ہمارے پاس کثیر افرادی قوت موجود ہے لیکن بدقسمتی سے دستیاب ملازمتیں اس افرادی قوت کو جذب کرنے سے قاصر ہیں۔ مزید یہ کہ تعلیم کے شعبے اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی کئی مسائل کا شکار ہے جبکہ صحت کی سہولیات محدود ہیں۔ شہروں کا بنیادی ڈھانچہ، شہری سہولتیں اور ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ کو برداشت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ آبادی بڑھنے سے شہروں میں رہاٸش کے مساٸل میں سرعت سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوٸی آبادی کی رہاٸشی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی رقبوں پر رہاٸشی کالونیاں بناٸی جا رہی ہیں۔ لہلاتے کھیت دھڑا دھڑ رہاٸشی پلازوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ بقول خالد صدیقی
؎ ایک اور کھیت پکی سڑک نے نگل لیا
ایک اور گاٶں شہر کی وسعت میں کھو گیا
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قدرتی اور معدنی وسائل کم ہو رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال پانی کی کمی ہے۔ اسی طرح تیل اور گیس جیسے دیگر وسائل میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو توانائی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ وطنِ عزیز کا انفراسٹرکچر بھی آبادی کے حجم کے لحاظ سے ناکافی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لیے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سڑکوں کی مناسب تعداد مہیا کرنا کسی بھی حکومت کے لیے بے حد مشکل ہے۔
آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ بڑھتی آبادی کی وجہ سے ہمارے محدود قدرتی وسائل کی نابودیت کے خطرات سے دوچار ہیں۔ سو ضروری ہے کہ اس مسئلے کے پاٸیدار حل کی طرف سنجیدہ توجہ دی جائے۔ بے ہنگم آبادی پر قابو پانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس پر سنجیدگی سے توجہ دی جاٸے۔ آبادی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش اور ایران کی کامیاب پالیسیوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو خاندانی منصوبہ بندی سے مشروط کر کے بھی بڑھتی ہوٸی آبادی کے چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ملک میں رہنے والے ہر شخص کو اپنے خاندان کے حقوق کا اندازہ ہونا چاہیے اور ان حقوق کی ادائیگی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ جب ہر شخص کو اپنی ذمہ داریوں کا اندازہ ہو گا تو وہ اپنے خاندان کے حجم میں توازن لائے گا۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہر سال 11 جولائی کو منائے جانے والے آبادی کے عالمی دن کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل، فیملی پلاننگ اور انسانی حقوق سے متعلق آگہی پھیلائی جائے۔ بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے ۔ اس خطرے پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر ایک متفقہ نقطہ نظر، مربوط ہوم ورک اور آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی لیے طویل مدتی اور جامع حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
0