سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کامحفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کالعدم قرار دیدیے اور کہا کہ تحریک انصاف مخصوص نشستوں کی حقدار ہے ، پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کیلئے اپنے امیدواروں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے۔سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور پی ٹی آئی قرار دیدیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، سنی اتحاد کونسل نے 2024 کا الیکشن نہیں لڑا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ فیصلہ5-8 کی اکثریت کا ہے ، منصور علی شاہ سے کہوں گا وہ فیصلہ سنائیں، فیصلہ منصور علی شاہ نے لکھا ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کا فیصلہ سنا تے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے ، انتخابی نشان کا نا ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔انتخابی نشان لینے سے کسی سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر نہیں کیا جا سکتا ، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پنجاب خیبر پختون خوا اور سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں ، تحریک انصاف 15 روز میں مخصوص نشستوں کیلئے اپنے امیدواروں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے۔سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو پارلیمںٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور پی ٹی آئی قرار دیدیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔دیگر 41 امیدوار بھی 14 دن میں سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار تھے۔تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے ، الیکشن کمیشن نے 80 امیدواروں کا ڈیٹاجمع کروایا۔پی ٹی آئی بحیثیت سیاسی جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی اور آئینی حقدار ہے۔فیصلے کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ جمع کروائیں ، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ میں منصور علی شاہ، اطہر من اللہ، شاہد وحید، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، حسن اظہر رضوی، عرفان سعادت نے تحریک انصاف کی مخصوص نشستیں دینے کے حق میں رائے دی جبکہ پانچ ججز نے مخالفت کی جن میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔سپریم کورٹ نے 9 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ میں شامل تمام ججز کی میٹنگ بلائی جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ تمام فریقین کے وکلا کے دلائل اور ریکارڈ کی روشنی میں ہر نکتے پر ججز کی رائے لی گئی۔سنی اتحاد کونسل نے موقف اختیار کیا تھا کہ مجموعی طور پر ستترمخصوص نشستیں متنازع ہیں، نشستوں میں قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں، یہ تمام نشستیں سنی اتحادکونسل کوملنی چاہیئے تھیں۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 31 مئی کو سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر دستیاب ججز کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا، جس نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر اپیلوں کی 9 سماعتیں کیں۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجموعی طور پر 77 متنازع نشستیں ہیں، یہ 77 مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے تھیں مگر دیگر جماعتوں کو ملیں، 77 نشستوں میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 77 متنازع مخصوص نشستوں کو معطل کر دیا تھا۔واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔یاد رہے کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے 21 فروری کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی ، 28 فروری کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کیا ، 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی درخواست پر 4-1 کے تناسب سے فیصلہ سنایا، 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی دائر درخواستیں خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ۔ 77 نشستوں کی تقسیم کچھ اس طرح کی گئی :کُل77 متنازع نشستوں میں سے 22 قومی اور 55 صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں ہیں۔الیکشن کمیشن پاکستان نے 13مئی کے نوٹیفکیشن کے ذریعے ان نشستوں کو معطل کر دیا تھا۔قومی اسمبلی کی معطل 22 نشستوں میں پنجاب سے خواتین کی 11، خیبر پختون خوا سے 8 سیٹیں شامل ہیں۔قومی اسمبلی میں معطل نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 14، پیپلز پارٹی کو 5، جے یو آئی ف کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں۔خیبر پختون خوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں معطل ہیں جن میں سے جے یو آئی ف کو 10، مسلم لیگ ن کو 7، پیپلز پارٹی کو 7، اے این پی کو 1 اضافی نشست ملی تھی۔پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں معطل ہیں، جن میں سے ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو 2، پی ایم ایل ق اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک ایک اضافی نشست ملی تھی۔سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 1 اقلیتی نشست معطل ہیں جہاں پیپلز پارٹی کو 2 اور ایم کیو ایم کو 1 مخصوص نشست ملی تھی۔(رپورٹ؛ ضیاء سرور قریشی)
0