یوم تکبیر 28 مئی تحریر: ردا امانت علی
رداامانت علی
یوم تکبیر پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا اہم دن ہے ۔ جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن پیدا کیا۔ اسطرح پاکستان امن کی علامت بن گیا۔اس خطے کے تمام چھوٹے ممالک نے سکھ کا سانس لیا۔ پاکستان کا معاشی استحکام بھی علاقے میں خوش حالی کی علامت ہے۔ پاکستان اس ترقی کے سفر میں جنوبی ایشیا ہی نہیں خطے کے دیگر ممالک کوبھی شریک کرنا چاہتا ہے تاکہ سب مل کر اس علاقے کے عوام کو خوش حال بنائیں۔انصاف اور معاشی ترقی کے یکساں مواقع ہی اس خطے میں امن کی ضمانت بن سکتے ہیں
یہ 28 مئی 1998ءکا مبارک دن تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے جن عناصر نے حب الوطنی اور اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے تاریخی کردار ادا کیا‘ ان میں روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی سرفہرست ہیں اور یہ بات تاریخی شواہد کی بنیاد پر واشگاف الفاظ میں کہی جاسکتی ہے کہ اگر جناب مجید نظامی اس معاملے میں حکومت وقت سے قومی سربلندی کی خاطر ٹکرا جانے والی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ بعض بڑے بڑے حاشیہ نشین اور چاپلوس صحافیوں کی ایک کھیپ مخصوص مفادات کے تحت پاکستان کی ذمہ دار قیادت کو ایٹمی دھماکے کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی مگر یہ مجید نظامی صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے اس حوالے سے نوائے وقت کی جاری کردہ استحکام پاکستان تحریک کو نقطہ عروج تک پہنچا دیا۔ 21 مئی 1998ءکو وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں مدیران اخبارات و جرائد سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیراعظم اور قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے مابین بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ دوران گفتگو دھماکہ کرنے کی صورت میں تمام ممکنہ پابندیوں اور ان کے نتیجے میں ملک کے غریب عوام کی اقتصادی مشکلات میں مزید اضافے کے حوالے سے بھی بحث و تمحیص ہوئی بعض دانشور مدیران جرائد نے دبے لفظوں میں ایٹمی دھماکے کرنے کی مخالفت کی۔ ایسے ماحول میں واحد آواز نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کی تھی جنہوں نے بڑی جرا¿ت کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے قومی امنگوں کی ترجمانی کی۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کرو ادیںورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ جناب مجید نظامی نے یہ بھی کہا کہ آپ ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آپ کو دوہری وارننگ کا سامنا ہے۔ اگر دھماکہ کرتے ہیں تو ممکن ہے امریکہ آپ کا دھماکہ کر دے مگر قومی اور ملکی سالمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ ایٹمی دھماکہ کریں۔ گویا جناب مجید نظامی نے نوائے وقت کی طرف سے سر دربار حاکم وقت کو بلاخوف و خطر کھری کھری سنا کر قومی فرض ادا کیا تھا۔ اس کے بعد جناب مجید نظامی نے 22 مئی 1998ءمیں اپنے اداریہ میں لکھا کہ ”پاکستان کی گومگو پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کر کے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ اور ترقی یافتہ ہے“۔ نیوز ویک نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو اس کی صلاحیت مشکوک سمجھی جائے گی مگر دوسروں کا بھی یہی خیال نظر آتا ہے۔ ممکن ہے وہ یہ لکھ کر دھماکہ کروانا چاہتےہوں۔ امریکی حکومت نے 27 مئی کی رات کو اسلام آباد میں متعین امریکی فیر سائمنز ساجونیئر کو وزیراعظم ہاﺅس بھیجا جنہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو صدر کلنٹن کا اہم پیغام اور بعض تجاویز پیش کیں جبکہ اسی روز سی این این کی واشنگٹن سے ٹیلی کاسٹ ہونے والی ایک خبر کو اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا۔ اس خبر کی سرخی یہ تھی کہ پاکستان نے دھماکہ کرنے کےلئے ایٹم بم زیرزمین پہنچا دیئے۔ دھماکہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ تیار کئے گئے بنکروں میں کنکریٹ ڈالی جارہی ہے: امریکی ٹی وی رپورٹ۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے دورِ حکومت میں پاکستان نے 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے علاقے چاغی کے مقام پر 5 کامیاب ایٹمی دھماکے کیے جس کے بعد اس دن کو ’یوم تکبیر‘ کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔
0