عنوان ” ہجرت زدہ بہاریں”
از؛ صفاخالد
فیصل آباد
‘صبا سے کہہ دو یہاں سے دبے قدم گزرے۔
شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے۔ شکیب جلالی
کرہّ ارض ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ان گنت پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ امریکی صدر کینڈی نے ان مسائل کے پیش نظر ایک سوال کے جواب میں کہا تھا۔
“ماحولیاتی مسائل کا تعلق انسانی سرگرمیوں سے ہے۔ کیونکہ ان مسائل کا پیدا ہونا انسانی مرحون منت ہے اس لیے مصائب کا حل بھی حضرت انسان کو خود ہی سوچنا ہوگا”۔
موسمی تبدیلیاں، زمینی، فضائی اور آبی الودگی، جنگلات کا بے جا کٹاؤ، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی، اوزون کی تہ میں ہونے والے شگاف، سورج کی الٹرا وائلنٹ شعاؤں کی بلواسطہ زمین تک رسائی، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا، تغیانی اور زلزلوں کی بڑھتی ہوئی شرح موسلا دھار بارشیں، غذائی قلت اور ناقص غذائی اشیاء کی دستیابی سے لے کر سمندروں کی سطح کا بلند ہونا اور خشک سالی شامل ہیں۔ اگرچہ ایک بین الاقوامی تنظیم ‘گرین پیس’ کے نام سے مولیاتی مسائل اور انکے کے حل کے لیے 1971 سے کوشاں ہیں۔ مگر بے ثمر۔
یہ بات واضح ہے کہ ہر ہر سال سردی اور گرمی کی شرح میں گزشتہ سال سے بتدریج اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ موسم کی اس تبدیلی میں سب سے بڑا کردار گرین ہاؤس افیکٹ اور گلوبل وارمنگ کا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں میں کاربن ڈائی اکسائیڈ، میتھین، نائٹرس اکسائیڈ جو ہوا میں پانی کے بخارات کے ساتھ مل کر ماحول پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ انسانی سرگرمیاں جیسے کہ ایندھن کا زیادہ استعمال، جنگلات کا بے جا کٹاؤ، آٹو موبائل یا نقصان دہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، فصلوں میں پیداوار بڑھانے کے لیے کھادوں اور سپرے کا استعمال، ایئر کنڈیشنز وغیرہ میں سے نکلتی ہوئی گیس شامل ہے۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب نہ جانے کتنی زندگیوں کو ڈبو چکے ہیں۔ آئے دن جنگلات میں بھڑکتی ہوئی آگ نہ صرف بائیو ڈائیورسٹی حیاتی زندگی کے لیے خطرہ ہے بلکہ کرہ ارض پر بھی سنگین مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ تیل، گیس اور کوئلہ انسانی زندگی کو دھیرے دھیرے نگلتے جا رہے ہیں۔ ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جس میں فوسل فیولز کا کم سے کم استعمال تیز رفتار اور منصفانہ طریقے سے عمل پذیر ہو۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ جہاں انسان اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے وہی انسانی زندگیاں اجل کہ دہانے پر کھڑی ہیں۔ سمپسن کارٹون جن کی پیشین گوئی آج تک غلط ثابت نہیں ہوئی ان کے مفروضے کے مطابق آنے والے چند سال دنیا کی تاریخ کے آخری سال بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ سورج کی روشنی آگ بن کر برسنے والی ہے۔ جسے دنیا میں چرند پرند کے ساتھ ساتھ جنگلات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
کاربن ڈائی اکسائڈ کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ جس سے ناصرف موسمیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں بلکہ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کچھ تدابیر ایسی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے صاف ماحول کی فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
عالمی حرارت کو کم کرنے کی سب سے بہترین حکمت عملی شجرکاری ہے۔ پودے اور درخت کاربن ڈائی اکسائیڈ جذب کرتے ہیں ۔ جس سے ماحول میں فضائی آلودگی کی شرح کم ہوتی ہے۔
توانائی کا کم سے کم اور بوقت ضرورت استعمال کیا جائے۔ تین آر 3R حکمت عملی ری سائیکل، ری یوز اورریڈیوس یعنی چیزوں کو بار بار استعمال کرنا، استعمال کی ہوئی چیزوں کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانا۔ اور ماحول دشمن عناصر کا کم سے کم استعمال۔
کوڑا کرکٹ کو مناسب طور پر ٹھکانے لگایا جائے۔ کوڑا کر کٹ ندی نالوں میں بہانے کی بجائے زمین میں دبا دیا جائے یا پھر ڈھیر اور گوبر کی صورت میں زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اس حوالے سے نہ صرف معاشرے میں آگہی پیدا کریں بلکہ اپنے طور پر ان سرگرمیوں کا جائزہ لیں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہی ہیں۔ انسان دوست معاشرہ ہی انسانوں کے رہنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ آنے والی نسلوں کی درست تقلید ضروری ہے۔ درخت لگانا اور اپنی نسل کو صاف شفاف ماحول میں پلنے بڑھنے کی ترغیب دینا آج کے معاشرے کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ روٹی، کپڑا اور مکان۔
