0

دیوانے کا خواب سے قیامِ پاکستان تک، تحریر: محمد وسیم شاہین (رحیم یارخان)

دیوانے کا خواب سے قیامِ پاکستان تک
محمد وسیم شاہین (رحیم یارخان)
1940 میں 23 مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور صرف سات سال کے قلیل عرصے میں مسلمانانِ برصغیر اپنے لیے پاکستان کی صورت میں ایک الگ ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر تحریکِ پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد اُسی روز پڑ گئی تھی جس روز برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ بہت سے صوفیاۓ کرام بھی یہاں آئے۔ اُن کی خوبیوں اور اسلام کی تبلیغ سے متاثر ہو کر برصغیر کے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور آہستہ آہستہ یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ مسلمانوں نے اپنے طویل دورِ حکومت میں شاندار کام کیے، عمدہ و عالیشان عمارات بنوائیں، علم و ادب کو فروغ دیا، مواصلات کا بہترین انتظام کیا۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر بہت عرصہ بعد مسلمانوں کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں انگریز برصغیر میں تجارت کے بہانے آئے اور آہستہ آہستہ حکومت پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ ہندوؤں نے بھی یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے۔ اُن دونوں حریفوں کی سازشوں اور مسلمانوں کے اندرونی خلفشار کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز برصغیر پر مکمل قابض ہو گئے۔ مسلمانوں نے اُن کو اپنے وطن سے نکالنے کی کئی کوششیں کیں اور اس مقصد کے لیے انگریزوں سے کٸی جنگیں بھی لڑیں۔ 1857 کی جنگِ آزادی اس سلسلے کی آخری سعی تھی جس میں مسلمانوں کو بھاری نقصان ہوا اور برصغیر مکمل طور پر انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ یوں کئی سو سال پر مشتمل مسلمانوں کی حکمرانی کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر چکا تھا۔
1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد برصغیر کے عوام بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ سختیاں اور زیادتیاں کی گئیں جن کے باعث مسلمان بے حد مایوس ہوگئے۔ اُن خراب حالات میں سر سید احمد خان ایک عظیم رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ آپ نے مسلمانوں کی ٹھیک نہج پر تربیت شروع کر دی اورمسلمانوں کو نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ وقتی طور پر خود کو سیاست سے دور رکھتے ہوئے انگریزی زبان سیکھیں اور جدید تعلیم کی طرف توجہ دیں۔ اس ضمن میں انہوں نے خود بھی کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ علی گڑھ کالج کا قیام سرسید احمد خان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ سر سید نے تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ سیاسی خدمات بھی سرانجام دیں۔ انہوں نے ہی مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس کے ارادوں سے آگاہ کیا۔ سر سید احمد خاں برصغیر میں دو قومی نظریے کے بانی کہلاتے ہیں۔
دو قومی نظریہ سے مراد ہے کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں ہیں، جو مختلف عادات، معاملات اور ثقافتوں کے علمبردار ہیں۔ اسی وجہ سے سرسید نے مسلمانوں کے لیے پہلی مرتبہ قوم کا لفظ استعمال کیا اور یہ ثابت کیا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ اُنہی کے نظریات سے مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی۔ پھر نہ صرف مسلمان منظم ہونا شروع ہوئے بلکہ 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلمانوں کا اجتماع ہوا اور مسلمانوں کی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی۔ بعد ازاں قائدِ اعظم محمد علی جناح بھی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور اس جماعت کی قیادت بھی قائدِ اعظم کے ہاتھ میں آ گئی۔ اُن کے ساتھ بہت سے رہنماؤں نے کام کیا۔ سرسید احمد خان کے بعد جن مسلمان رہنماؤں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور آزادی کے لیے کام کیا اُن میں محسن الملک، وقار الملک، مولانا محمد علی جوہر، شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، محترمہ فاطمہ جناح، قائدِ اعظم محمد علی جناح اور بے شمار دوسرے رہنما شامل تھے۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد جاری تھی۔ ہندو چاہتے تھے کہ برصغیر انگریزوں سے آزاد ہو جائے اور وہ جاتے ہوئے عنانِ اقتدار ہندوٶں کے ہاتھ سونپ کر چلے جائیں اس لیے کانگریس نے ”تقسیم کرو اور چلے جاٶ“ کا نعرہ لگایا لیکن مسلمانوں کے لیے یہ ہر گز قابلِ قبول نہ تھا کیوں کہ اس طرح وہ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندوٶں کی غلامی میں چلے جاتے۔ پھر اُن کی تہذیب و ثقافت، مذہب اور روایات کے تحفظ کا بھی کوئی امکان نہ رہتا۔ ان خدشات کی بڑی وجہ ہندوٶں اور اُن کی نمائندہ جماعت کانگریس کا نامناسب رویہ تھا۔ ہندو مسلمانوں کو کسی قسم کی مراعات دینے کو تیار نہ تھے اور نہ وہ مسلمانوں کو قوم کی حیثیت سے تسلیم کرنے کو تیار تھے۔ اس کا عملی نمونہ 1937 سے 1939 کے درمیانی عرصہ میں دیکھنے کو ملا جب برصغیر کے سات صوبوں میں کانگریس پارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اس جماعت اور اس کے حواریوں نے مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کیں۔ جب ہندوٶں کی جانب سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے مسلمانوں میں علیحدگی کا احساس بڑھتا چلا گیا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوۓ کہ انہیں ہر حال میں اپنا علیحدہ وطن حاصل کرنا چاہیے۔ اُس وقت مسلمان پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچ یا بنگالی ہرگز نہ تھے اور نہ ہی کوئی مسلک تھا بلکہ صرف مسلمان تھے اور سب ایک تھے۔ گویا علامہ محمد اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے کہ;
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے وہ ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
سب سے پہلے 1938ء میں سندھ مسلم لیگ نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا اور مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 21، 22، اور 23 مارچ 1940ء کو طے تھا جسے رکوانے کے لیے انتظامیہ نے دفعہ 144 کا نفاذ کر رکھا تھا تاکہ مسلمان اجلاس منعقد نہ کر سکیں اور جذبہ آزادی سے دستبردار ہو جائیں جو مسلمانوں کے لیے ناممکن تھا۔ سو 19 مارچ کو جذبہ آزادی سے سرشار مسلمانوں نے کرفیو کو توڑا جس پر پولیس نے گولی چلائی اور نتیجے میں درجنوں مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ جلسے کی تاریخ نزدیک تھی اور لاہور کی فضا بھی انتہائی سوگوار تھی مگر مسلمانوں کے حوصلے بہت بلند تھے اور وہ ہر حال میں اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے پرُ عزم تھے۔ 21 مارچ کو قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ٹرین کے ذریعے لاہور کا سفر کیا۔ آپ فرنٹیئر میل کے ذریعے دہلی سے لاہور روانہ ہوئے تھے۔ راستے کے تمام بڑے بڑے سٹیشنوں پر ریل گاڑی ٹھہرتی رہی اور قائدِ اعظم کا والہانہ خیر مقدم ہوتا رہا۔ جب قائدِ اعظم لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو وہاں بھی لاکھوں لوگوں نے اُن کا پرتپاک استقبال کیا۔ قائد اعظم ریلوے اسٹیشن سے زخمیوں کی عیادت کرنے ہسپتال پہنچے اور عیادت کے ساتھ ساتھ اُن کے جذبے کی بھی داد دی جس پر کارکنانِ مسلم لیگ و مسلمانانِ برصغیر کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ آخر کار 23مارچ، 1940ء کا وہ تاریخی دن آن پہنچا۔ جلسے کی صدارت بھی قائدِ اعظم نے فرمائی۔ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ قائدِ اعظم نے تقریباً 100منٹ تقریر کی۔ چونکہ اس جلسے کا مقصد دو قومی نظریے کو اُجاگر کرنا تھا اس لیے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اور قرار دادِ پاکستان پیش کرتے ہوئے محمد علی جناح نے فرمایا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں جن کے مذہب الگ ہیں، جن کی غمی خوشی، رسم و رواج اور رہن سہن الگ ہیں۔ لہٰذا یہ دو قومیں ہیں اور ہم اپنے رہنے کے لیے الگ ملک پاکستان بنائیں گے ،جہاں تمام مذاہب کے لوگ مکمل آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں گے۔ اس اجلاس میں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد منظور کی گئی جس میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ اس قرارداد کی تائید مختلف صوبوں سے آئے ہوئے رہنماؤں نے کی۔دوسری جانب اس قرارداد نے ہندو قیادت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ کانگریس نے مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے اور تقسیمِ ہند کی تجویز کو ناقابلِ عمل اور دیوانے کا خواب قرار دیا مگر قائدِ اعظم نے ہندو رہنماؤں کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:
’’قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے حصے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی موجود ہیں۔‘‘
قائد اعظم نے 23 مارچ 1940ء کو قرار دادِ لاہور کے صدارتی خطبے میں ہی اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا کہ ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہیں، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہیں۔ اُن کے ہیرو اور اُن کے کارنامے مختلف ہیں۔ دونوں کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ: ’’میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔‘‘
اس قرارداد سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے منزل کا تعین ہو گیا تھا اس لیے یہی قرارداد تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل قرار پائی۔ ابتدا میں اس قرارداد کو قراردادِ لاہور کا نام دیا گیا۔ ہندو پریس اور ہندو لیڈروں نے قراردادِ لا ہور کو قرار دادِ پاکستان کہہ کر تمسخر اُڑایا جو بعد ازاں اسی نام سے مشہور ہوٸی۔ قراردادِ پاکستان کے چیدہ چیدہ نکات یہ تھے

* تقسیمِ ہند کے علاوہ کسی دوسری تجویز کی نامنظوری
* آزاد اور مضبوط مسلم حکومت کا قیام
* کانگریس سے چھٹکارا حاصل کرنا
* تاریخی و جغرافیائی ضرورت
* مسلمانوں کی معاشرتی، ثقافتی، علمی و فکری ترقی
* قومی و ملی اتحاد اور اتحادِ عالمِ اسلامی۔
قراردادِ پاکستان منظور ہونے کے فقط سات سال بعد بے شمار قربانیوں کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر ایک آزاد ریاست کا حصول یقینی بنا سکے۔ ہم نے علیحدہ وطن تو حاصل کر لیا مگر صد افسوس کہ علامہ محمد اقبال کے قومی ویژن اور قائدِ اعظم کی عملی جدوجہد کے برعکس آج کا پاکستان، بانیانِ پاکستان کی عظیم جدوجہد کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کے کشیدہ سیاسی کلچر، فرقہ واریت، مذہبی و لسانی گرہ بندی، مذہبی انتہا پسندی، بد عنوانی اور اقربا پروری کی اُبھرتی ہوئی تصویر نے پاکستان کے خدوخال کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ فکرِ اقبال اور بانیانِ پاکستان کی تعلیمات کے برعکس ملک کے جمہوری تشخص اور پاکستان کی اساس کو نقصان پہنچانے کی کوششیش تواتر سے جاری و ساری ہیں۔ جبکہ عوامی فلاح و بہبود سے قطع نظر اقتدار کی غلام گردشوں اور حصولِ اقتدار کے لیے غیر جمہوری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ افسوس کہ اقبال کے قومی ویژن اور قائداعظم کی تعلیمات کو یکسر بُھلا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کو مایوسی کے اِس دور سے نکالنے کیلئے بانیانِ پاکستان کے افکار سے رجوع کرنا ہوگا۔ نیز فلاحی معاشرہ قائم کرنے از سرِ نو عوامی جدوجہد کو منظم کرنا ہوگا کہ اِسی میں ریاستِ خداداد کی فلاح و بھلائی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں