0

“والدین شجر ہا سایہ دار” تحریر: ضیاء سرور قریشی

“والدین شجر ہا سایہ دار” تحریر: ضیاء سرور قریشی
اللہ عزو جل نے عالم شہادت کے اندر جتنی بھی اشیاء پیدا فرمائیں ان کے دو طبقات بنا دیے جیسے قرآنی اصطلاح میں ،، جوڑا سے تشریح کیا گیا یوں مونث مذکر ہنر و مادہ میل فی میل تزکیہ و تانیت لغت کی تفسیریں قرار پائیں ۔ پھر انسانیت ارتقا کرنے گئی تو اللہ عز و جل نے مذکو ره دو طبقات (مونث و مذکر ) کو مختلف درجہ بندیوں میں بانٹ دیا یوں مونث بیوی بنی پھر ماں اور بیٹی بنی اور کہیں بہن کے روپ میں سامنے آئی جھینہ مذکر خاوند، باپ اور بیٹے کے ساتھ بھائی کا روپ دیا گیا ۔ یوں ارتقاء کا سلسلہ رکا نہیں بڑھتا گیا خاندان سے قبیلہ قوم شہر اور ملک بنائے گئے یوں محرمات ایک حد کو پہنچ کر نا محرم بنتے گئے ۔ یہ تو انسانیت کے پھیلاؤ کی فطرتی کیفیت کی اجمالی عکاسی تھی اس پھیلاؤ اور بڑھوتری کو قیام و دوام دینے میں جن کرداروں نے بنیادی و کلید ذمہ داری نبھائیں ان ناموس کا تذکرہ خیر خالق کائنات نے الرحمان و الرحیم کی صفات الہیہ سے تشبیہ دے کر فرمایا ، ایک بچہ جس نے اس دنیا میں آنکھ کھول کر رنگینی کائنات کے اندر رہ کر معاشرہ و سماجی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو پرورش کے مراحل سے گزارنا ہوتا ہے ۔ اسے طبعی ، نفسیاتی جسمانی ، اخلاقی ، ماحولیاتی ہر اعتبار سے دو طرح کے عوارض سے گذرنا پڑتا ہے ایک معاملات داخلیہ کہلاتے ہیں جیسے شخصی آزادی تعلیم و تربیت کے مواقع سردی گرمی کے خارجی اثرات سے تحفظ عزت نفس کی حفاظت اور معاشرتی ترقی کے مواقع جو کہ ایک بچہ کو اپنی زندگی میں دیکھتے اور پڑھتے ہیں اب بچہ جسمانی ساخت ، زہنی کیفیت ، تجربه و مشاہدہ کے لحاظ سے کسی بھی صورت ان حالات سے نبرد آزما نہیں ہو سکتا۔ تو قدرت نے اس کے داخلی و خارجی مسائل کو حل کرنے کے لیے ماں اور باپ کے روپ میں دو محافظ فراہم کر دیے باپ اولاد کی نگہداشت اسکے دشمنوں سے حفاظت اور معاشرے کا بہترین فرد بنانے کے لیے تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرتا ہے اس کی ضروریت کے لیے وسائل اکھٹے کرتا ہے اس کی عزت نفس کی بحالی اور ترقی کے لیے کوشاں رہتا ہے اور یہ تمام کام وہ انداز مہربانی شفقت اور اپنائیت سے کرتا ہے جیسے فی الواقع الرحمن کے ساتھ نسبت حقیقی کہا جا سکتا ہے ۔ دوسرا پہلو جسے داخلی معاملات اور ضروریات سے جانا جاتا ہے رب کائنات نے بچے کے داخلی اور نفسی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اسے مامتا کی گود بطور آشیانہ تحفہ خداوندی کے طور پر دی اب ماں سردی کی شدت اور گرمی کی حدت افلاس فقر و فاقہ ہو یا آسودگی و خوشحالی ہر صورت اپنے لخت جگر کی فکر میں سب قربان کر دیتی ہے وہ بھوک مٹاتی ہے ، پیاس بجھاتی ہے دینی اطمینان کیلیے لوریاں دیتی ہے اپنائیت دکھانے کو کلیجہ سے لگا لیتی ہے دل بہلانے کو طرح طرح کی اٹھکیلیاں کرتی ہے ماتا کے کردار کی عکاسی اپنا نعم البدل نہیں رکھتی اس لیے قرآن حکیم نے الرحیم کی صفت کی مثال ماں کے کردار کے ذریعہ ظاہر و باہر فرمائی من جملہ بحث ماں اور باپ کے عمرانی ، فطرتی و فلسفی پہلو کے لیے تھی تاکہ ہم تصویر کا وہ پہلو بھی جان سکیں جس کی بدولت معاشرہ ترقی کی ان منازل کو چھو رہا ہے اب ہمارے سامنے تصویر کا دوسرا رخ آنا چاہیے جس میں ماتا اور پانے مل کر ہم پر سائباں قائم کر رکھا جب سائیاں کا کردار یا دونوں کردار اپنی ابدی و سروری منزل سدھار گئے تو ہم ہجر و فراق کی کربناکیوں کو برداشت نہ کر پائے اور نغمہ انجوک ، میری ماں مجھے یاد آنے لگی ” کے کرب نے کہیں پہلو پلٹائے ۔ یا پھر معاشرتی، معاشی اور سماجی بے حسی نے ہر جانب سے حصار میں لے کر آرزوں و تمناؤں کا ماتم کیا تو ، ماں تیری ٹھنڈی چھاں اشکوں کے موتی بنانے لگی ۔ ماں اور باپ اپنے بطن سے جنم پانے والے پتروں کے لیے سائبان نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانیت کے لیے سائبان ہوتے ہیں تاریخ اقوام عالم میں ابراہیم جیسا باپ اور حضرت سارہ اور حضرت حاجرہ جیسی مائیں موجود ہیں جنہوں نے انسانیت کے امام اسحاق اور حضرت اسمعیل پیدا کیے جن کی تعلیمات آج گلوبل دنیا کے لیے واحد ذریعہ نجات ثابت ہو رہی ہیں ۔ تاریخ میں یعقوب جیسے باپ نے یوسف جیسا بیٹا دیا جس کے عملی کردار نے اس وقت کی انسانیت کو بھوک و افلاس سے نکالا اور دنیا زراعت کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کروایا داؤد اور سلیمان بھی ماں باپ کے پالنہار تھے جنہوں نے جنوب شمال ، مشرق، غروب انسانیت کو وحدت اخلاق ، وحدت فکر ، وحدت عمل میں پرو دیا۔ پھر دیکھیں باپ حضرت عبداللہ ہوں، اور ماں حضرت آمنہ ہوں تو بیٹا رحمت العلمین بن کر دنیا سے قیصر وکسری کے ظالمانہ نظاموں کو کس طرح ختم کر کے دنیا انسانیت کو عدل سے بھر دیتا ہے۔ روحانی ماں حضرت عائشہ ہوں تو علوم شریعیہ پوری دنیا میں پھیلتا ہے ، فاطمہ بنت مکی ہوں امام شافعی پیدا ہوتے ہیں رابعہ بصری ہوں تو طریقت کے امام فیض پاتے ہیں ۔ ماں رضیہ سلطانہ ہو تو کالجز اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا دیتی ہے ۔ افسوس آج انگریز سامراج نے ہم سے ہمارا باپ محمد بن قاسم محمود غزنوی ، ابن سینا ، ابن خلدون ، نارابی ، البیرونی ، ابن البشم ، صلاح الدین ایوبی شمس تبریز ، مولانا رومی اور امام شاہ ولی اللہ جیسے اجتماعیت کو قائم کرنے والے باپ ہم سے چھین لیے ۔ اور اجتماعیت اور عدلیت کے لیے سپوت پیدا کرنے والی مائیں بھی سامراج اور طاغوت نے ہم سے چھین لیں ہیں ، وہ ماں کہاں جو حسین پیدا کرے جو اپنے بطن سے شیخ عبد القادر مولانا رومی اور امام شاہ ولی اللہ جیسے اجتماعیت کو قائم کرنے والے باپ ہم سے چھین لیے ۔ اور اجتماعیت اور عدلیت کے لیے سپوت پیدا کرنے والی مائیں بھی سامراج اور طاغوت نے ہم سے چھین لیں ہیں ، وہ ماں کہاں جو حسین پیدا کرے جو اپنے بطن سے شیخ عبدالقادر جیلانی کو نصیت کرے جو عبداللہ ابن زبیر کو شجاعت کا درس دے جو اپنے بطن میں حضرت اجمیر کو اٹھائے وہ ماں کہاں جو احمد شاہ ابدالی کو جنم دے جو شاہ اسمعیل شہید جیسا انسانیت دوست فرد معاشرہ کو دئے ۔ آج تو مائیں لیلائیں ، شیرینیاں ہیاں سوہنیاں پیدا کرتی ہیں جبکہ باپ، مجنوں ، رانجھا ، بنوں ، فرہاد ، مائی وال جیسے بیٹوں کو معاشرے کی بھاگ دوڑ تھما رہے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ نے ماں کی خاک پا کو جنت سے تعبیر کیا واقع ہی دیکھیں حضرت عمر نے مانا کا سپوت ہو کر عرب و عجم کو کس طرح دنیاوی جنت بنایا تاریخ گواہ ہے عدل و انصاف ، معاشی مساوات ، سیاسی عدل سائنسی اور تنظیمی ترقی ، نے مسلمانوں کو دنیا کا امام بنا دیا۔ شجر ہائے سایہ دار سے مراد یہی ہے کہ درخت سایہ اپنے مالک ہی کے لیے نہیں کرتا بلکہ اس سائے میں جو بھی آئے ٹھنڈک پائے اس طرح درخت اپنی آکسیجن خارج کر کے ہر خاص و عام کے لیے ہوا تحلیل کرتا ہے ۔ درخت کا پھل ہر ایک کے لیے ہوتا ہے اگر سوکھ جائے تو لکڑ سے مالکان اور انسانیت کے لیے آرائش و زیبائش کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ اسی طرح ماں اور باپ بمصداق شجر انسانیت کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتے ہیں ہماری اس بحث کو تاریخ کے وسیع تر تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے تو انشاءاللہ خیر و بھلائی کے بہت سے پہلو اجاگر ہوں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں