0

“آبادی کا اژدھ”تحریر:ا حمد وسیم شاہین (رحیم یار خان)

“آبادی کا اژدھ”تحریر:ا حمد وسیم شاہین (رحیم یار خان)
گزرے وقتوں میں افرادی قوت کو کسی ملک یا قبیلے کے لیے اہم تصور کیا جاتا تھا۔ چونکہ اُن وقتوں میں افرادی قوت کے ذریعے دوسرے ممالک یا قباٸل پہ حملہ آور ہوا جاتا تھا اور جنگ کے بعد مفتوحہ ممالک کے وسائل پر قابض ہو جاتے تھے اس لیے کوشش ہوتی تھی کہ اپنی اس قوت میں اضافہ کیا جاۓ مگر موجودہ حالات یکسر مختلف ہیں۔
انسانوں کا ہجوم جو پہلے کسی ملک کے لیے ایک اہم ہتھیار گردانا جاتا تھا اب وہ ممالک یا دنیا کے لیے مساٸل کا موجب بنا ہوا ہے۔ بڑھتی ہوٸی آباد سے پریشان ممالک میں وطنِ عزیز پاکستان بھی شامل ہے۔ایشیا کرہ ارض پر گنجان آباد براعظم ہے۔ چین، بھارت اور انڈونیشیا گنجان آبادی والے ممالک ہیں جو دنیا میں بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے ایشیا کا چوتھا، دنیا کا پانچواں اور مسلم ممالک میں دوسرا بڑا ملک ہے۔جنوبی ایشیاٸی ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح میں پاکستان سب سے آگے ہے، جو 2.55 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ 1998 میں پاکستان کی آبادی 13 کروڑ تھی جو 2023 کی مردم شماری کے مطابق 24 کروڑ سے زاٸد ہو چکی ہے۔ اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ 2050 میں وطنِ عزیز کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ جاۓ گی جو پاکستان جیسے مفلوک الحال ملک پہ نہ صرف بوجھ ہوگا بلکہ مزید مساٸل کا سبب بنے گا۔آبادی میں بے تحاشہ اضافہ مختلف سماجی مساٸل کا موجب بن رہا ہے جن میں بے روزگاری، ناخواندگی، چاٸلڈ لیبر اور بڑھتی ہوٸی انتہا پسندی شامل ہیں۔علاوہ ازیں تواناٸی کا بحران، روزگار کے کم مواقع، بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن، امن و امان کی مخدوش صورتحال، پبلک ٹرانسپورٹیشن کی حالت اور اس جیسے دیگر مساٸل بھی وطنِ عزیز کو درپیش ہیں۔ انتظامی اداروں کو اپنے روز مرہ کے امور کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے عوام کو اُن کے بنیادی حقوق صحت اور تعلیم جیسی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
آبادی میں یہ بے ہنگم اضافہ قدرتی وسائل پر بھی سخت دباٶ ڈال رہا ہے۔ یہ صورتحال مستقبل میں ایک بحران کی شکل اختيار کر سکتی ہے۔ پانی کو ہی لے لیں، 2023 کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کی فی کس دستیابی کمی کا شکار ہے۔ اراضی اور اس کے استعمال پر بڑھتی ہوٸی آبادی کے اثرات بھی توجہ طلب ہیں۔

زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کے لیے اپنے لیے بڑھتی ہوٸی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں گندم، سبزیاں، پھل، دالیں اور دیگر اشیاۓ خوردونوش دوسرے ممالک سے درآمد کرنی پڑتی ہیں جن پر کثیر ملکی زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ بڑھتی آبادی کی رہاٸشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زرعی زمینوں کو ہاٶسنگ سکیموں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جہاں چند سال قبل لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے اب وہاں دھڑا دھڑ رہاٸشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ اس رجحان سے وطنِ عزیز کو ایک مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔

پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طبقہ مذہب کو بنیاد بنا کر خاندانی منصوبہ بندی کا گناہ سمجھتا ہے۔ اکثر لوگوں کا یہ استد لال ہوتا ہے کہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ اللہ پاک سے اپنا رزق لکھوا کر آتا ہے۔ بلاشبہ خداۓ برتر نے ہر ذی روح کا رزق لکھا ہے مگر اس کے لیے جدوجہد شرط ہے۔
دوسری وجہ کم عمری کی شادی اور عورت کا با اختيار نہ ہونا ہے۔ عموماً گھر اور خاندان کے فیصلوں میں خاتون خانہ کی راۓ کو اہمیت نہیں دی جاتی یا بچے پیدا کرنا اس کا فرض العین سمجھا جاتا ہے۔
بیٹے کی خواہش میں زیادہ بیٹیاں پیدا کر لینے کا رواج بھی عام ہے۔ اگر چار پانچ بیٹیوں کی بعد بیٹا پیدا ہو بھی جاۓ تو بیٹے کی خواہش نہ صرف کنبے بلکہ ملکی آبادی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ آبادی میں اضافے کی دیگر وجوہات میں تعلیم و شعور کا فقدان بھی ہے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ ناخواندہ ہے جس کے نزدیک بڑھتی آبادی کوٸی بڑا مسٸلہ نہیں ہے۔ وہ طبقہ یہ تصور کرتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہوکر اس کی آمدنی میں اضافے کا باعث بنے گا۔

وطنِ عزیز کی بڑھتی آبادی کسی دھماکے سے کم نہیں۔ آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے پاکستان کو سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملکی آبادی کے اس بڑھتے ہوۓ رجحان پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے علما۶ کرام کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ عورت کو اتنا با اختيار بنانا ہوگا کہ وہ اپنے شوہر اور گھر والوں کو متوازن گھرانے کی افادیت پر قاٸل کر سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں