0

نظم: دسمبر لوٹ آیا ہے۔شاعرہ : عزیز فاطمہ

نظم: دسمبر لوٹ آیا ہے۔شاعرہ : عزیز فاطمہ
نظم: دسمبر لوٹ آیا ہے۔
دسمبر لوٹ آیا ہے
کہ دسمبر لوٹ آیا ہے
یہ میرے آنگن کا سونا پن
مجھ کو یہ بتاتا ہے کہ
دسمبر لوٹ آیا ہے
یہ اداس شامیں، یہ تاریک راتیں
مجھ کو بتلاتی ہیں
کہ دسمبر لوٹ آیا ہے۔
میرے من کی تنہائیوں میں
ہوا پھر سے اضافہ ہے
کہ دسمبر لوٹ آیا ہے۔
اندر ،باہر ہر سو پھیلی اِک خاموشی ہے
اِک انجانا خوف ہے اس میں
میرے من کے شہروں میں پھیلا جو سناٹا ہے
کہ دسمبر لوٹ آیا ہے۔
ان سرد ہواؤں میں
سوکھے پتوں کی سرسراہٹ میں
درختوں کی خزاؤں میں
اِک احساس جگایا ہے
کہ دسمبر لوٹ آیا ہے
بیتے لمحوں کی یادیں، سیلابی ریلوں جیسی ہیں
دل کے گہرے سمندر میں اتری ہیں موجوں کی طرح
سمندر کی ان لہروں میں جو سناٹا ہے
کہ دسمبر لوٹ آیا ہے۔
وہ جو حسین پل ساتھ بتائے
ان حسین لمحوں پہ یادوں کی پڑ ی دھند فاطمہ
احساس یہ دلاتی ہے کہ دسمبر لوٹ آیا ہے۔
کہ دسمبر لوٹ آیا ہے۔

کیٹاگری میں : ادب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں