رداامانت علی
فیصل آباد
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح
آج میں قلم اٹھا کر ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہی ہوں جس کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے بہت کم ہو گا۔ پیدائشی نام محمد علی جناح، 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی “قوم کا باپ“ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے، اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔آپ پاکستان کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ دنیا کا سب سے طاقتور پاسپورٹ،جسکی دو لائنیں مٹانے کیلے اسرائیل مرا جا رہا ہے لیکن انشاءاللہ یہ دو لائینیں قیامت تک نہیں مٹیں گی.پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا، یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہیں. آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ جناح کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے۔اُن کے دادا کا نام جناح میگجی تھا،جوکہ کاٹھیاوار کی ریاست گوندل میں بھاٹیا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ابتدائی طور پر یہ گھرانہ ہجرت کرکے ملتان کے نزدیک ساہیوال میں آباد ہوا۔ کچھ ذرائع سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جناح کے آباؤ اجداد ساہیوال، پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہندو راجپوت تھے جوکہ بعد مسلمان ہوگئے۔ جناح کے دیگر بہن بھائیوں میں تین بھائی اور تین بہنیں تھیں، بھائیوں میں احمد علی، بندے علی اور رحمت علی جبکہ بہنوں میں مریم جناح، فاطمہ اور شیریں جناح شامل تھیں۔ جناح کے خاندان والے شیعہ مذہب کی شاخ کھوجہ شیعہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن جناح بعد میں شیعہ مذہب کی ہی دوسری شاخ اثناء عشری کی جانب مائل ہوگئے۔ ان کی مادری زبان گجراتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ کچھی، سندھی، اردو اور انگریزی بھی بولنے لگے۔ نوجوان جناح ایک بے چین طالبِ علم تھے، جنہوں نے کئی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام، ممبئی میں گوکل داس تیج پرائمری اسکول اور بالآخر مسیحی تبلیغی سماجی اعلٰی درجاتی اسکول، کراچی میں آپ زیرِ تعلیم رہے جہاں سے آپ نے سولہ 16 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان جامعہء ممبئی سے پاس کیا۔اسی سال 1892ء میں آپ برطانیہ کی گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں تربیتی پیش نامہ کے لئے گئے، ایک ایسا تجارتی کام جوکہ پونجا بھائی جناح کے کاروبار سے گہرا تعلق رکھتا تھا۔تاہم برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی والدہ کے دباؤ پر آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے کردی گئی، جوکہ آپ سے دو سال چھوٹی تھیں۔تاہم یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی کیونکہ آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ مہینوں بعد ہی ایمی جناح وفات پا گئیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1895ء میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 19 سال کی عمر میں برطانیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے کم سن ترین ہندوستانی کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے ساتھ سیاست میں بھی آپ کی دلچسپی بڑھنے لگی اور آپ ہندوستانی سیاستدانوں دادا بھائی ناؤروجی اور سر فیروز شاہ مہتہ سے متاثر ہونے لگے۔
اس دوران آپ نے دیگر ہندوستانی طلبہ کے ساتھ مل کر برطانوی پارلیمنٹ کے انتخابات میں سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔اس سرگرمیوں کا اثر یہ ہوا کہ جناح وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی آئین ساز خود مختار حکومت کے نظریہ کے حامی ہوتے گئے اور آپ نے ہندوستانیوں کے خلاف برطانوی گوروں کے ہتک آمیز اور امتیازی سلوک کی مذمت کی۔
1896ء میں جناح نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی جوکہ اُس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی لیکن اُس وقت کے دیگر کانگریسی رہنماؤں کی طرح جناح نے یکسر آزادی کی حمایت کرنے کی بجائے اُنہوں نے ہندوستان کی تعلیم، قانون، ثقافت اور صنعت پر برطانوی اثرات کو ہندوستان کے لئے موثر قرار دیا۔ جناح ساٹھ رکنی مرکزی مشاورتی کونسل (امپیریل لیگسلیٹیو کونسل) کے ممبر بن گئے لیکن اس کونسل کی اپنی کوئی حیثیت یا طاقت نہیں تھی اور اس میں شامل زیادہ تر افراد غیر منتخب، سلطنتِ برطانیہ کی زبان بولنے والے یورپی تھے۔ اس کے باوجود جناح متحرک رہے اور کم عمری کی شادی کے لئے قانون اور مسلمانوں کے وقف کے حق کو قانونی شکل دینے کے لئے کام کرتے رہے، انہیں کاوشوں کے نتیجے میں سندھرسٹ کمیٹی بنائی گئی، جس نے ڈھیرا ڈن میں انڈین ملٹری اکیڈمی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ممبئی میں واقع جناح ہاؤس انگلستان میں قیام کے آخری دنوں میں جناح والد کے کاروبار کی تباہی کی وجہ سے شدید دباؤ میں آگئے۔ آپ برطانیہ واپس تشریف لائے اور ممبئی میں وکالت کا آغاز کیا اور جلد ہی نامی گرامی وکیل بن گئے۔ خصوصاً سرفیروز شاہ کے سیاسی مقدمے کی جیت نے آپ کی شہرت و نام کو چار چاند لگا دئیے۔ یہ مقدمی 1905ء میں ممبئی کی ہائی کورٹ میں دائر ہوا، جس میں جناح نے سر فیروز شاہ کی پیروی کی اور جیت بھی جناح ہی کے حصے میں آئی۔ جناح نے جنوبی ممبئی میں واقع مالا بار میں ایک گھر تعمیر کروایا جو کہ بعد میں “جناح ہاؤس“ کہلایا۔ ایک کامیاب وکیل کے طور پر اُن کے بڑھتی شہرت نے ہندوستان کے معروف رہنما بال گنگا دھر کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی اور یوں 1905ء میں بال گنگا دھر نے جناح کی خدمات بطور دفاعی مشیرِ قانون حاصل کیں تاکہ وہ اُن پر سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے دائر کئے گئے، نقصِ امن کے مقدمے کی پیروی کریں۔ جناح نے اس مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے، اپنے موکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر اپنے ملک میں آزاد اور خود مختار حکومت کے قیام کی بات کرتا ہے تو یہ نقصِ امن یا غداری کے زمرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود بال گنگا دھر کو اس مقدمے میں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔
ابتداء میں جناح نے 1906ء میں قائم کی گئی آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے سے گریز کیا کیونکہ مسلم لیگ پورے ہندوستان کے بجائے صرف مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی۔ آخر کار 1913ء میں جناح نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرہی لی اور 1916ء میں لکھنوء میں ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ کے صدر منتخب کرلئے گئے۔ جناح 1916ء کو کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ہونے میثاقِ لکھنؤ کے معمار تھے، جو کہ خود مختاری، برطانیہ سے آزادی اور اس جیسے دیگر متفقہ مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک متحدہ پلیٹ فارم تھا۔ آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے اور مسلم ہندو اتحاد کے حامی تھے۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے۔ آپ نے خودمختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ انڈیا چھوڑ کر برطانیہ چلے کئے۔ بہت سے مسلمان رہنماؤں خصوصا علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔جناح عقائد کی نقطہء نظر سے ایک معتدل مزاج شیعہ مسلمان تھے۔شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو “
مولانا ظفر علی خان
”تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تندوتیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو ۔ “
لیاقت علی خان
پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی
خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا –
” اس کا عزم پایندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا۔
علامہ اقبال
ایک خط میں علامہ نے قائد کو لکھا “برطانوی ہند میں اس وقت صرف آپ ہی ایسے لیڈر ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے کا حق پوری ملتِ اسلامہ کو حاصل ہے”۔علامہ کی بیماری کے دوران جواہر لال نہرو ان کی عیادت کو آئے ۔ دورانِ گفتگو نہرو نے حضرت علامہ سے کہا “حضرت آپ اسلامیانِ ہند کے مسلمہ اور مقتدر لیڈر ہیں کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آپ اسلامیانِ ہند کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔” تو حضرت علامہ نے فرمایا، “جواہر لا ل! ہماری کشتی کا ناخدا صرف مسٹر محمد علی جناح ہے میں تو اس کی فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں۔”
مفتئ اعظم فلسطین سید امین الحسینی
قائدِ اعظم دسمبر 1946ء میں لندن سے واپسی پر قاہرہ میں ٹھہرے۔یہیں پر اخوان المسلمون کے عظیم رہنما امام حسن البنا شہید بھی آپ سے ملے اور آپ کو قرآن کریم کا ایک نسخہ بھی پیش کیا یہ نسخہ اب بھی مقبرہ قائد کے ساتھ واقع میزیم کی زینت ھے۔ انہی دنوں مفتی اعظم قاہرہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک تقریب میں آپ نے قائد کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا۔پاکستان بننے کے بعد جناب مفتئ اعظم نے فرمایا، “اللہ تعالیٰ نے ہمیں فلسطین کے بدلے میں پا کستان کا خطہ عنایت فرمایا ہے۔”
پروفیسر اسٹینلے
“جناح آف پا کستان” کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں ۔
” بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے.14 جولائی 1948 کا دن تھا جب اس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو ان کی علالت کے پیش نظر کوئٹہ سے زیارت منتقل کیا گیا تھا۔ بابائے قوم کی بہن فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’مائی برادر‘ میں تحریر کیا ہے کہ کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا فیصلہ جناح کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ ان کی سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات کے باعث کوئٹہ میں بھی انھیں آرام کا موقع بالکل نہیں مل رہا تھا اور مختلف اداروں اور مختلف رہنماؤں کی جانب سے انھیں مسلسل دعوتیں موصول ہو رہی تھیں کہ وہ ان کے اجتماعات میں شرکت کریں اور ان سے خطاب کریں۔ اس کے بعد وہ فقط 60 دن زندہ رہے اور 11 ستمبر 1948 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ بابائے پاکستان کے یہی آخری 60 دن اس تحریر کا موضوع ہیں۔
یہ پراسرار گتھی آج تک حل نہیں ہوسکی کہ ’قائد اعظم‘ محمد علی جناح کو شدید بیماری کے عالم میں کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ زیارت اپنے صنوبر کے درختوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور کوئٹہ سے 133 کلو میٹر فاصلے پر 2449 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جگہ ایک بزرگ خرواری بابا کی آخری آرام گاہ کی نسبت سے زیارت کہلاتی ہے اور جناح کی آرام گاہ یا ’قائد اعظم ریزیڈنسی‘ زیارت سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
بابائے قوم کے لئے ردا کی طرف سے چند اشعار
تیرے بغیر پاکستان کا وجود تھا کہاں
تیری انتھک کوششوں سے بنا تھا پاکستان
کہ حیرت سے دیکھتا تھا تجھے جہاں
اے میرے قائد ، اے میرے قائد
آج تو ہوتا تو پاکستان عرش کا تارہ ہوتا
کرتے تجھے پیار ، تُو ملت کا تارہ ہوتا
اے میرے قائد، اے میرے قائد