0

خالی ہاتھ، از قلم: انیلہ افضال ایڈووکیٹ

عنوان: خالی ہاتھ
از قلم: انیلہ افضال ایڈووکیٹ
نثار احمد لاونج میں رکھے صوفے پر ڈھے سے گئے تھے۔ سر کے بال پشیمانی سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، آنکھیں دھندلا سی گئی تھیں۔ چہرہ میدانی علاقوں میں اڑتے بادلوں کی طرح سفید و سیاہ کے متناسب سے امتزاج سے دھواں دھواں سا ہو رہا تھا۔ سارے منظر شام کے دھندلکے میں ڈھل گئے تھے۔ لاونج میں بیٹھے دیگر افراد اس دھند میں چھپ گئے تھے، جو ان کی آنکھوں میں اتر آئی تھی۔ زندگی کے پینتالیس برس، ہائے! اور برس بھی جوانی کے؛ جو کہیں زیادہ حسین ہو سکتے تھے, ایک ہی پل میں مٹی ہو گئے تھے۔
ابھی عمر ہی کیا تھی اس کی؟ آٹھویں جماعت میں جب پڑھائی سے دل اُچاٹ ہو گیا تو اباجی اسے ایک لیڈیز ٹیلر کے ہاں کام سیکھنے کے لیے چھوڑ آئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پڑھائی چھوڑ کر کسی کرسی کے لائق تو رہا نہیں، اب ہنر سیکھ لے گا تو گارے مٹی کی مزدوری سے بچ جائے گا۔ اسے بھی یہ چھوٹی سی دنیا خاصی دلچسپ لگی تھی۔ آرام سے نو بجے بستر سے نکلو، ایک پراٹھا ناشتے میں کھاؤ، ایک اماں ڈبے میں ڈال کر دوپہر میں کھانے کو ساتھ دے دیا کرتی تھی۔ ہر روز چہرے پر تاسف سجائے وہ کہتی، وے پتر! پڑھ لیتا تو کہیں بابو بن جاتا، اچھے گھر میں تیرا بیاہ کر دیتی، اب درزی کو رشتہ کون دے گا؟ خاندان میں سے تو کوئی دے گا نہیں۔ وے پتر! ابھی بھی سوچ لے! ڈلے بیروں کا کچھ بھی نہیں بگڑتا، ہیں! مگر وہ لاپرواہی سے کہتا، اماں! جب کام سیکھ کر دکان ڈالوں گا نا! یہ خاندان کی جو ساری عورتیں ہیں نا! تیرے پتر کے ترلے کریں گی ترلے! اخے چھارے! میرا سوٹ پہلے سی دے، وے چھارے! میرے سوٹ کا ڈیزائن اس چھیماں کے سوٹ سے اچھا بنانا، وہ خیالوں میں مزے لیتا ہوا کہتا؛ اور اماں ٹھندی سانس بھر کر رہ جاتی۔ تین ہی سال میں وہ پورا ماہر ہو گیا تھا۔ اب تو استاد نے اسے دیہاڑی دینا بھی شروع کر دیا تھا۔ استاد سے دیہاڑی لے کر جب دکان سے نکلتا تو گھر جاتے ہوئے گڑوی دودھ کی لے کے جاتا، اماں آدھے دودھ میں ڈھیر سارا ٹھنڈا پانی ڈال کر کچی لسی بنا کر گھر کے آٹھوں افراد کو گلاس گلاس پلاتی۔ اماں کہتی تھی کچی لسی ٹھندی ہوتی ہے، جگر معدے کی گرمی مارتی ہے۔ باقی کے آدھے دودھ میں پھر سے ڈھیر سارا پانی ملا کر گھر پر کے لیے صبح کی چائے بھی بنا لیتی تھی۔ وہ کہتی تھی، پتر! پتلی چائے کلیجا نہیں ساڑتی، بلکہ چستی پیدا کرتی ہے۔ اماں بڑی سیانی تھی، اسے طب کے سارے اصولوں کا پتا تھا۔ کھانے پینے، سونے جاگنے، گرمی سردی کے سارے فائدے اور نقصانات اسے معلوم تھے۔ اب وہ اکثر کہتی، چل کوئی نہیں پتر! اگر سارے لوگ پڑھ لکھ کر بابو بن جائیں گے تو کپڑے کون سیئے گا؟ اور مٹی کی ٹرالی کون بھرے گا؟ اپنی بات کا آخری حصہ بولتے ہوئے وہ ابا کی جانب ضرور دیکھتی۔ ابا جی مٹی کی ٹرالیاں بھرتے اور خالی کرتے تھے۔ زندگی کی نرمی سختی کو قریب سے دیکھا تھا۔ اپنی اولاد پر خاص دھیان دیتے تھے۔ اللہ نے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔ دو جی وہ آپ تھے۔ یوں محنت مزدوری کر کے آٹھ افراد کا کنبہ وہ بخوبی پال رہے تھے۔ بچوں کو سرکاری سکولوں میں ڈال رکھا تھا۔ بڑی بیٹی نصرت اجرت پر سوٹوں پر ہاتھ کی کڑھائی کرتی تھی۔ خیر سے سات جماعتیں پاس تھی۔ ابا تو اسے میٹرک تک پڑھانا چاہتے تھے، پر اماں کے مطابق اتنی پڑھائی بھی بہت تھی، زیادہ پڑھائی لڑکیوں کا دماغ خراب کر دیتی ہے۔ ابا نے بہت کوشش کی کہ اماں نصرت کی پڑھائی نہ چھڑائے مگر جب پھوپھو نے بتایا کہ زیادہ پڑھنے والی لڑکیاں گھر سے بھاگ جایا کرتی ہیں تو ابا جی بھی دھل سے گئے تھے۔ نصرت کو جب کسی سوٹ کی اجرت ملتی تو اماں جھٹ سے اس کے جہیز کے لیے کوئی چیز خرید لیتیں، کبھی کھیس تو کبھی بیڈ شیٹ کا کپڑا، جس پر نصرت نے خود کڑھائی کر کے اسے قیمتی بنانا ہوتا تھا۔ ایک بار تو اماں نے ایک گرم شال بھی خریدی تھی، کہہ رہی تھی کہ نصرت کی ساس کے لیے لی ہے۔ پر اماں! تیرے پاس بھی تو کوئی گرم شال نہیں ہے، چھارے نے کہا۔ نہ پتر! میرے جگر میں گرمی ہو جاتی ہے تو ویسے ہی ہاتھ پاؤں میں ساڑ پڑتا رہتا ہے۔ شاید خون میں بھی گرمی ہو گئی ہے۔ ایسے میں سردی کہاں لگنی ہے۔
پہلے نصرت اور اب چھارا، دونوں ہی اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹانے میں لگے ہوئے تھے۔ ایک دن کام سے لوٹا تو ابا جی نے حکم دیا کہ کل سے پھاجا بھی اس کے ساتھ درزی کا کام سیکھنے دکان پر جائے گا۔ پر کیوں ابا جی؟ اسے سکول جانے دیں۔
او وہ بھی تو تیرا ہی بھائی ہے، کہتا ہے اب اور نہیں پڑھنا۔
میں بات کرتا ہوں اس سے۔
کر کے دیکھ لے، میں تو چاہتا ہوں کہ میری طرح گرمی سردی میں مٹی کی ٹرالیاں نہ بھرنی پڑیں تم لوگوں کو مگر پتا نہیں تم لوگ کیا چاہتے ہو؟
دیکھ پھاجے! پڑھائی بڑا سوکھا کام ہے۔ اور اس کا حاصل بھی بہت بڑا ہے۔ کسی دفتر میں بابو بن کر بیٹھے گا۔ اگر تو زیادہ پڑھ لکھ جائے گا تو گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر والے دفتر میں بیٹھ کر کام کرے گا۔
تو نے بھی تو پڑھائی چھوڑی ہے نا! اب دیکھ، پیسے کما رہا ہے۔ میں بھی پیسے کمانا چاہتا ہوں۔ پھاجے نے دلیل دی۔
یار! جب تو سکول سے آتا ہے تو اماں ٹھنڈے پانی کا گلاس تجھے دیتی ہے، گرم گرم کھانا کھلاتی ہے؛ پھر تجھے آرام کرنے کے لیے پنکھے کے نیچے لٹا دیتی ہے کہ تو تھک گیا ہو گا۔ ایسے ہی ہے نا!
ہاں! پھاجے نے سر ہلایا
اور یار! مجھے دیکھ صبح کو روٹی سالن ساتھ لے کر جاتا ہوں، دوپہر ہوتی ہے تو ڈبہ اٹھا کر تندور پر لے جاتا ہوں یا کسی ہوٹل والے کا ترلا کرتا ہوں کہ سالن گرم کر دے۔ کبھی تو کوئی سالن گرم کر دیتا ہے اور کبھی جھاڑ دیتا ہے۔ یار! کبھی سالن گرم تو روٹی ٹھنڈی، اور کبھی دونوں چیزیں ٹھندی کھا کر رب کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ذرا کمر سیدھی کرنے کو دیوار سے ٹیک لگا لو تو استاد کی گالیاں سننا پڑتی ہیں۔ علم بڑی چیز ہے یار! پڑھائی کر اور بابو بن۔
بات پھاجے کی سمجھ میں آگئی تھی۔ انہی دنوں رب نواز سعودیہ سے چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ روز سویرے کلف لگا سوٹ پہن کر محلے کے چوک میں بیٹھ جاتا اور سارے ویلوں کو سعودیہ کے قصے سناتا کہ کیسے وہ وہاں ریال چھاپ رہا ہے۔ کئی ویلے تو اس خیال سے اس کے ساتھ چپکے ہوئے تھے کہ کیا پتا، رب نواز انہیں بھی سعودی عرب کے ویزے سے نواز دے۔ رب نواز نے حالات کو بھانپتے ہوئے بتا دیا کہ سعودی عرب کا ویزہ نوے ہزار سے کم میں نہیں مل سکتا۔ اڑتی اڑتی خبر چھارے کے کانوں میں پڑی تو اس نے اباجی سے بات کرنے کی سوچی اور بات کر بھی لی۔
مگر پتر! نوے ہزار روپے ہم کہاں سے لائیں گے؟
ابا جی! میرے ہاتھ میں ہنر ہے، اور رب نواز کہہ رہا تھا کہ وہاں درزیوں کی بڑی مانگ ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ میں تو وہاں ریال چھاپوں گا اور کیا پتا میں رب نواز سے بھی زیادہ کمانے لگ جاؤں۔ ابا جی، حالات بدل جائیں گے!
وہ تو سب ٹھیک ہے مگر اتنے روپے؟
وہ جی، میں نے کمیٹیاں ڈال ڈال کر نصرت کا کچھ زیور بنوا رکھا ہے۔ ایک سیٹ ہے اور دو چوڑیاں ہیں۔ ساس کی ڈنڈی جھمکی بھی بنوا رکھی ہے اور داماد کی انگوٹھی بھی ہے۔
ہیں! ساس! داماد! او بھئی کون سی ساس اور کون سا داماد ؟ اباجی حیران پریشان سے بولے۔
آئے ہائے! داماد ہے نہیں تو ہو گا تو سہی، اور اس کی ایک ماں بھی ہو گی، جسے ڈنڈی جھمکی ڈالنا بہت ضروری ہے۔
اچھااااا ، ابا جی نے لمبی سانس لی۔
تو وہ زیور ہم بیچ دیتے ہیں۔ اور چھارے کو باہر بھیج دیتے ہیں۔ یہ وہاں سے ریال کما کر بھیجے گا تو زیور پھر بنوا لیں گے۔ اماں کے ترکیب بتاتے ہوئے کہا۔
ہمممم! ٹھیک ہے میں رب نواز سے بات کرتا ہوں۔
رب نواز نے پہلے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں مگر ابا جی نے منت ترلے کر کے اسے منا ہی لیا۔ اس نے بھی حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے پانچ ہزار روپے کم کر دیئے کہ پچاسی ہزار تو کفیل کو دینا ہے، پانچ ہزار میرا کمشن ہے وہ میں آپ کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔ ابا جی خوشی خوشی گھر ائے۔ اماں نے لحافوں والی پیٹی میں سے زیور کے ڈبے نکال کر اباجی کے سامنے رکھ دیئے۔ اگلی صبح ابا جی نے سنار سے قیمت لگوائی تو مر مرا کر سارا زیور پینتیس ہزار روپے کا ہوا۔ باقی کے پچاس ہزار جمع کرنا بھی جوئے شیر لائے کے مترادف تھا۔ خیر رشتہ داروں سے مانگ تانگ کر اور کچھ اباجی نے اپنے ٹھیکیدار سے ایڈوانس بھی لیا ؛ جس کے عوض میں اس نے روپے ادا ہونے تک ابا جی کی دیہاڑی ڈیڑھ سو سے گھٹا کر ایک تیس روپے کردی۔ خاندان والے، محلے والے، ٹھیکے دار اور اپنے استاد کے احسانوں اور قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا چھارا سعودی عرب پہنچ گیا۔ یہاں خوابوں جیسا کچھ بھی نہیں تھا۔ دن رات کی بدن توڑ محنت تھی۔ کھانا پینا، سونا جاگنا تو گویا خواب ہی ہو گیا تھا۔ گھر کی یاد ستاتی تو پاکستان کی جانب منہ کر کے رو لیتا۔ بہن کا زیور بیچ کر اور سارے خاندان سے قرض مانگ کر سعودی آیا ہوں، ایسے تو واپس نہیں جا سکتا۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے گئے۔ مکان نیا بھی ہو گیا اور دو منزلہ بھی ہو گیا۔ نصرت کی شادی ہو گئی تھی۔ اس دن وہ کتنا رویا تھا۔ بہن کو رخصت کرنے بھی نہیں جا سکا تھا۔ اکثر مشین چلاتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر پر ” نام ” فلم کے گانے سنا کرتا تھا۔ ” تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں گا، تو یاد بہت آئے گا تو میں کیا کروں گا” سارے لڑکے مل کر اکثر گایا بھی کرتے تھے۔ ” چٹھی آئی ہے، وطن سے چٹھی آئی ہے“ سب کر رویا بھی کرتے تھے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک چھوٹی سی دنیا آباد ہو گئی تھی۔ رفتہ رفتہ دل لگ گیا تھا۔ بھائی کالجوں میں پڑھنے لگے تھے۔ چھوٹی طیبہ کی شادی بھی دھوم دھام سے ہو گئی تھی۔ اب ابا جی اسے چھٹی پر پاکستان آنے کا کہنے لگے تھے۔
بیٹا! کوئی چھ ماہ کی چھٹی لے کر پاکستان آجا، تیری شادی کرنی ہے۔
ابا جی! پھاجا، نیاز اور حسنین ابھی پڑھ رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ تعلیم کتنی مہنگی ہو گئی ہے؟
او یار تو اب آجا! ابا جی نے کہا اور فون بند کر دیا۔
چھ سال بعد اپنی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اس کا سینہ بے پناہ محبت سے بھر گیا تھا۔ سارے بھائی، دونوں بہنیں اور بہنوئی، اپنے بچوں کے ساتھ آئے تھے۔ سب بڑی چاہت سے مل رہے تھے۔ اور سنا پھاجے! اب تو یونیورسٹی جانے لگا ہے۔ اس نے محبت اور جوش سے پھاجے کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ پھاجے! چھوٹے بہنوئی نے مسکراتے ہوئے دہرایا۔
او کم آن بھائی! فیاض ! فیاض ! پھاجا تو بہنوئی کی مسکراہٹ دیکھ کر تڑپ ہی گیا تھا۔
او اچھا اچھا! فیاض صاحب! اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
سب خوش تھے۔ ابا جی نے چھوٹے چچا کی بیٹی کو اس کے لیے مانگ لیا تھا۔ ثانیہ بی اے میں پڑھ رہی تھی اس کا ارادہ بی ایڈ کرنے کا تھا۔ پر ابا جی! میں کہاں اور ثانیہ کہاں، وہ پشیمان سا تھا۔ پتر گھر کی دیکھی بھالی لڑکی ہے، خوش شکل ہے، سگھڑ ہے، پڑھی لکھی ہے اور کیا چاہئے؟
یہی تو بات ہے ابا جی! میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں اور ثانیہ۔۔۔۔۔۔
کچھ نہیں پتر! لڑکے کی شکل اور تعلیم کوئی معانی نہیں رکھتی، کماتا کتنا ہے؟ وہ سب سے اہم ہے. اور تو کتنا کماتا ہے، یہ بات سارا خاندان جانتا ہے۔
چھ مہینے پر لگا کر اڑ گئے۔ واپس جانے کا وقت آگیا تھا۔ اماں نے روتے ہوئے کہا نہ جا پتر! گھر بن گیا ہے ، بہنوں کی شادیاں ہو گئی ہیں، فیاض یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے، خیر سے جلد نوکری پر بھی لگ جائے گا۔ نیاز اور حسنین کالج جانے لگے ہیں۔ سب کچھ تو ٹھیک ہو گیا ہے۔ اب یہیں رہ جا! ابا جی نے بھی زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا، یار تیرے بغیر پورا پاکستان سونا لگتا ہے۔ دل تو اس کا بھی ان سب کے بغیر نہیں لگتا تھا مگر چھوٹے بھائیوں نے گاڑی کی فرمائش کی تھی۔ نصرت نے اسے یاد دلایا تھا کہ اس کہ شادی میں اسے ریفریجریٹر ، واشنگ مشین اور ٹی وی نہیں ملے تھے۔ طیبہ نے سر جھکا کر بھائی کا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس نے اس کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی تھی مگر اس کی ساس کو اماں نے ڈنڈیاں ہی ڈالی تھیں۔ اور اس کی ساس آج تک طعنہ دیتی ہے کہ بھائی سعودیہ میں ریال کما رہا ہے کم از کم کڑے تو ڈالنے چاہئیں تھے۔ چھارا چاہ کر بھی رک نہیں سکتا تھا۔ آنکھوں میں سمندر چھپائے وہ دیار غیر چلا آیا تھا۔
اگلے پانچ سالوں میں فیاض تعلیم مکمل کر کے بنک میں نوکری کر رہا تھا، پھوپھو کی لڑکی سے اس کی شادی بھی ہو گئی تھی۔ بھائی کو لڑکیوں کی تعلیم سے ڈرانے والی پھوپھو کی بیٹی نے ایم اے کر لیا تھا۔ وہ فیاض کے لیے بالکل مناسب تھی۔ نیاز ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کر رہا تھا۔ اس کا رشتہ بھی طے ہو گیا تھا۔ اب کی بار پھر ابا جی نے اسے پاکستان آنے کا کہا اور فون بند کر دیا۔ وہ چھٹی لے کر چلا آیا تھا۔ اس بار ائیر پورٹ پر اماں، اباجی اور حسنین ہی آئے تھے۔ باقی سب گھر پر اس کا انتظار کر رہے تھے۔ سب اس کے آنے سے خوش تھے۔ ابا جی نے اس کی اور نیاز کی شادی کی تاریخ طے کر رکھی تھی۔ دونوں شادیاں عافیت سے انجام پا گئیں۔ ابھی شہنائیوں کی گونج ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اباجی کو برین ہیمرج ہو گیا۔ پرائیویٹ اسپتال والوں نے کھال تک کھینچ لی، لیکن شکر ہے کہ اباجی کی جان بچ گئی تھی۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ ثانیہ کے ساتھ رہنا چاہتا تھا مگر دو شادیوں کے فوراً بعد اباجی کی بیماری نےکمر توڑ دی تھی۔ اس نے ثانیہ سے وعدہ کیا تھا کہ صرف ایک چکر سعودیہ کا، اور کچھ پیسے جمع کر کے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے پاس لوٹ آئے گا۔ یہیں رہے گا اور کوئی کاروبار کر لے گا۔
فیاض نے اپنا مکان بنانا شروع کر دیا تھا، اس کے بنک نے قرض بھی دے دیا تھا، آخر کو وہ ان کا ملازم تھا؛ مگر اخراجات تخمینے سے بہت بڑھ گئے تھے۔ چھارے کو فون کیا کہ کچھ پیسے بھیج دو مکان کا کام اٹک گیا ہے۔
کتنے پیسے بھیج دوں؟
پندرہ لاکھ بھیج دو میں گزارا کر لوں گا۔
پندرہ لاکھ! اچھا میں کچھ کرتا ہوں
اگلے برس نیاز کو آٹھ لاکھ کی ضرورت پڑ گئی
ابھی حسنین کا فرض باقی تھا۔ اس دوران وہ پاکستان کا چکر لگا آیا تھا۔ لائبہ اور دانیال اس کے دو پیارے پیارے بچے تھے۔ جن سے وہ بے پناہ محبت کرتا تھا۔ وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔ مگر حسنین کو کاروبار کے لیے تیس لاکھ روپے چاہئیں تھے۔ اسی دوران بچے سکول جانے لگے تھے۔ ثانیہ نے شہر کے بہترین سکول میں ان کا داخلہ کروایا تھا۔ اس کا کہنا تھا بھائی بہنوں کے سارے ارمان پورے کئے ہیں تو بچوں کا تو ویسے بھی حق بنتا ہے۔ اب بچوں کے مستقبل کے لیے اسے ریال چھاپنے تھے۔ اماں اور اباجی جنت مکانی ہو گئے تھے۔ وہ ان کے جنازے کو کاندھا بھی نہیں دے پایا تھا۔ بچے اب بڑے ہو رہے تھے۔ لائبہ نے بی ڈی ایس میں داخلہ لے لیا تھا اور دانیال سول انجینئرنگ پڑھ رہا تھا۔ وہ خوش تھا کہ چلو بچے کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس کا ارادہ تھا کہ بچوں کی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ہمیشہ کے لیے پاکستان چلا جاؤں گا۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاروں گا۔ ثانیہ نے اسے بچوں کی شادی کروانے تک سعودیہ میں ہی رکنے کو کہا تھا۔ لوگ کیا کہیں گے؟ باپ اتنے سالوں سے سعودیہ میں ہے اور بچوں کی شادی میں کوئی دھوم دھام نہیں۔ بچے اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے تھے۔ لائبہ کو اس نے کلینک بھی بنا کر دیا تھا۔ وہ بھی اب چھارے سے نثار احمد بن چکا تھا۔ دانیال کینیڈا میں سیٹل ہونے کا سوچ رہا تھا۔ وہ دانیال کو پاکستان میں ہی روکنا چاہتا تھا۔ جلدی جلدی سب سمیٹ کر پاکستان واپس پہنچا تھا۔ سب بھائی بہن اس سے ملنے آئے تھے۔ کھانے سے فارغ ہو کر اس نے سب کو تحائف دیئے۔ اب وہ دانیال کی جانب متوجہ ہوا۔
بیٹا تمہاری ماما بتا رہی تھیں کہ تم کینیڈا سیٹل ہونے کی سوچ رہے ہو؟
جی بابا!
بیٹا پردیس کوئی اچھی چیز تو نہیں، میں نے کاٹا ہے، میں جانتا ہوں۔ وطن سے دور،گھر سے دور، ماں باپ سے دور، بھائی بہنوں سے دور،بیوی سے دور، بچوں سے دور۔ اس کا لہجہ درد اور تھکن سے چور تھا۔
مگر بابا میں تو اپنی فیملی کو اپنے ساتھ کینیڈا میں ہی رکھوں گا۔
مگر بیٹا! میں ، تمہاری ماما اور لائبہ؟
بابا، لائبہ اپنے گھر کی ہو چکی، آپ اور ماما اب ایک دوسرے کی سپورٹ بنیں۔ خیر! ماما کو بھی اب شاید آپ کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ساری زندگی اکیلی رہتے رہتے وہ آپ کے بغیر رہنا سیکھ چکی ہیں؛ اور ویسے بھی یہاں ہے ہی کیا؟
بیٹا میں نے ساری زندگی تم لوگوں کے لیے محنت کی ہے۔ یہ گھر بنایا، گاڑی لی، تم لوگوں کو تعلیم دلوائی، تم لوگوں کو سیٹل کیا اور کیا کرتا۔
ارے بھائی! فیاض نے لقمہ دیا، یہی آپ نے کچھ بچایا ہوتا، جوڑا ہوتا، کوئی پراپرٹی بنائی ہوتی تو آج آپ کا بیٹا یوں ملک سے باہر جانے کا فیصلہ نہ کرتا۔
وہی تو! نیاز نے انٹری ماری، سمجھ میں نہیں آتا، آپ نے پینتالیس برس سعودیہ میں گھاس کھودی یے؟ آج ایک ڈھنگ کا مکان تک نہیں ہے آپ کے پاس۔ اباجی کے مکان پر ہی قبضہ کر کے بیٹھے ہیں۔
اور نہیں تو کیا! آپ سے بہتر تو ہم ہیں، پاکستان میں رہ کر بھی آپ سے بہتر حالات ہیں ہمارے۔ حسنین نے عقلمندی جھاڑی!
وہ تو آپ کے حالات دیکھتے ہوئے ہم اباجی کے مکان میں سے حصہ نہیں مانگ رہے ورنہ ہمارا حق بھی تو بنتا ہے۔ طیبہ نے ہمدردی جتائی۔
ثانیہ نے ترس کھاتی ہوئی نگاہوں سے نثار کو دیکھا، نثار صاحب! آپ نے زندگی پینتالیس خوب صورت سال جن کی خاطر دیار غیر کی خاک چھاننے میں گنوا دیئے، ان کے نزدیک آپ ایک ناکام انسان ہیں۔ جنہیں سٹینڈ کرتے رہے وہ آج آپ پر ترس کھا رہے ہیں۔ آپ نے عمر گنوادی ، صحت گنوا دی، محبت گنوا دی، اپنی اولاد کا بچپن گنوا دیا، میری جوانی گنوا دی۔ آج آپ کے پاس ہے ہی کیا؟ کچھ بھی نہیں، کچھ بھی تو نہیں، ایک ہی ایک بیٹا ہے، اور وہ بھی آپ کی ناکامیوں کی وجہ سے پردیس میں جا کر بسنے کی سوچ رہا ہے۔
نثار احمد کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگی تھیں۔ آج عمر کے اس موڑ پر وہ عمر گنوا کر خالی ہاتھ کھڑا تھا، بالکل خالی ہاتھ!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں