0

معاشرتی برائیاں ،، آپا منزہ جاوید، اسلام آباد

آپا منزہ جاوید.. اسلام آباد
معاشرتی برائیاں
جیسے کہ ہم دیکھ رہے ہیں دن بدن ہمارا معاشرتی نظام تنزلی کا شکار ھو رہا ہے معاشرے میں پہلے جیسی محبت . ایثار . میل جول نہیں رہا ہر بندہ دوسرے سے تنگ .بے زار اور اکتاہٹ کا شکار نظر آتا یے ہمارے مسائل دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں کہنے کو ہم الحمدللہ مسلمان ہیں لیکن بہت افسوس اور معزرت کے لکھ رہی ھوں کون سی برائ نہیں جو ہمارے معاشرے میں موجود نہیں. جھوٹ کی بات کریں کہ غیبت . بے ایمانی .چوری. سود رشوت وہ کون برائی ہے جو نظر نہیں آتی .جبکہ اب جہالت بھی نہیں رہی کہ ہم کہیں ہمیں علم نہیں . ہمارے پاس دینی تعلیمات بھی اور دنیاوی بھی سب سے بڑی رول ماڈل شخصیت ہمارے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وَ سَلَّم کی اسوہ حسنہ انکی زندگی ہمارے سامنے ہے. جہاں ہمیں عمدہ طریقے سے زندگی گزارنے کے طریقے ملتے ہیں. اگر ہم ان پر عمل کریں تو ہر برائی کا خاتمہ ھو سکتا ہے ہر مشکل کا حل مل سکتا ہے. ھونا تو یہ چاہیے تھا جہاں علم نے ترقی کی ویسے ویسے ہمارے اندر سے برائیاں ختم نہیں تو بہت کم ضرور ھوتی جاتیں لیکن ایسا بالکل نہیں ہے جہاں دیکھیں ہمارے معملات میں بے ایمانی چوری سود جھوٹ شامل ھو چکا ہے. جبکہ ہمارے بچے جبکہ تعلیم یافتہ لوگ پہلے سے زیادہ ہیں. اتنے پڑھے لکھے کہ ڈگریوں کے ڈھیر لگے ھوۓ ہیں کاروباری سطح پر بھی ہم ترقی کرتے نظر آتے ہیں لیکن ھونا تو یہ چاہیے کہ معاشرہ پہلے سے زیادہ اچھا ھوتا ترقی یافتہ ممالک میں ہمارا شمار ھوتا .لیکن کیا وجہ ہے ہمارا معاشرہ گراوٹ کا شکار ہے ہمارا معاشی نظام بری طرح انتشار اور گروٹ کا شکار ھو رہا ہے ہر بندہ پرشان ہے . میرے خیال میں اسکی. ایک وجہ بےروزگاری اور مہنگائی بھی ہے. ہمارے اعلی ڈگری یافتہ جوان بے روزی گاری کا شکار ہیں، جہاں بے روزگاری ھو وہاں کیسے خوشحالی ھو گی اور سکون ھو گا.بےروزگاری نے ذہینی سکون کو بری طرح بے سکونی میں بدل دیا ہے ملک میں ہر طرف روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی بڑھتی قیمتیں آمدن سے زیادہ خرچے ہیں ہر بندہ ہی پرشان ہے لیکن اس معاشرے میں اخلاقی برائی بھی بڑھ رہی ہے جیسے دوسرے کی کامیابی سے حسد کرنا دوسرے کی ذات پر خوامخواہ الزام تراشی کرنا
بڑوں کا ادب احترام نہ کرنا بچوں کی غلطی سے درگزر کرکہ انہیں غلط اور درست میں فرق بتانا .
معاشرے میں ایک اور بات برائی غنڈہ گردی لڑائی جھگڑا کرنا جلدی گالی گلوچ پے اتر آنا بد لحاضی کرنا بھی سرائیت کر گیا ہے کسی کا قتل کر دینا یہ سوچے بنا کہ انکے اپنوں کا کیا بنے گا ان پے کیا بیتے گی دلوں کے سخت ھونے کی نشانی ہے ہم رحم کرنا چھوڑ رہے ہیں جبکہ ہمارا دین ہمیں حسن اخلاق اور رحم کرنے معاف کرنے کی تعلیم دیتا ہے ہم اسلام کے احکام سے دوری کا شکار ہیں اسلام ہمیں کیا سکھاتا ہے یہ سمجھے بغیر ہمارا معاشرہ امن سکون والا نہیں بن سکتا معاشرہ ایک فرد کا نام نہیں نہ ایک خاندان کا نام ہے جہاں مل کر بہت سے خاندان رہتے ہیں تب ایک معاشرہ بنتا ہے لیکن معاشرے میں بگاڑ تب پیدا ھوتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے حقوق فرائض میں کوتاہی کرتے ہیں اور دوسری معاشرتی بگاڑ کی وجہ ہمارا خاندانی نظام بھی ہے پہلے شام کے وقت سب گھر افراد اکھٹے ھوتے تھے ایک دوسرے سے سارے دن کی اونچ نیچ پر بات کی جاتی تھی بچے بڑوں سے بہت کچھ سکھتے تھے ایک دوسرے سے حالات سے ہم واقفیت حاصل کرتے تھے ہمیں باتوں باتوں میں ایک دوسرے سے بات کرنے صبر سے دوسرے کی بات سننے کی عادت پڑتی تھی. گھر میں اگر کسی کے سر میں درد بھی ہے تو گھر کے افراد کو علم ھوتا تھا ہمارا یہ بہن بھائ یا ماں باپ تکلیف میں ہے کوئ نہ کوئ سر دیا دیتا دن ہے تو سر کی مالش کر دی جاتی اپنوں کی توجہ اور محبت بھرے لمس سے آرام آ جاتا تھا بچے شام کو ماں یا باپ کے پاؤں دباتے تو اس وقت ماں باپ بہت دعاؤں کے ساتھ ساتھ عام باتوں باتوں میں کوئ نصحت کی کہانی سناتے جو بچے بچیوں کے لیے کار آمد ھوتی تھی بچوں میں ماں باپ کی خدمت کرنے کے جزبے کی آبپاری ھوتی رہتی تھی گھر کے افراد کا دوسرے سے جڑے رہنے اور محبت کرنے سے ذہن تندرست رہتا تھا انسان اکیلے پن اور چڑ چڑاہٹ کا شکار نہیں ھوتا تھا.جہاں علم نے ترقی کی شوشل میڈیا زیادہ ایکٹیو ھوا. فون لیپ ٹاپ کمپیوٹر یعنی سائنس کی ترقی زیادہ ھوئی لیکن ہمارا خاندانی نظام خراب ھوتا گیا محلے میں راو رسم محدود ھوگے ایک دوسرے سے تعلق کم ھوتا جارہا ہے ہر بندہ پرشان اور اکیلے پن کا شکار ہے پہلے دکھ سکھ بانٹ لیے جاتے تھے اب دوسرے کے دکھ کا مزاق اڑیا جاتا ہے ہر بندہ دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر بےانتہا محنت کرنے پیسہ کمانے میں لگا ھوا ہے پیسے کی ہوس نے انسان میں حلال حرام کی تمیز کو کم کر دیا ہے چھینا جھپٹی کا سما ہے کوئ کسی کو خوش یا کامیاب دیکھ کر خوش نہیں ھوتا . کوئی یہ نہیں سوچتا حسد بعض سے حاصل کچھ نہیں ھوتا ہمیشہ اللہ نے جو عطا کیا ہے اس پر شکر الحمدللہ کہنے سے ہی سکون ملے گا کسی کی نعمت پر اسے مبارک دینے سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ھو گا .ہمیں اپنی نسلوں میں برائیاں ختم کرنی ہیں تو ہمیں اپنے کردار اپنے اخلاق کو عملی طور پر پیش کرنا پڑے گا ابھی بھی وقت ہے ابھی بھی اتنی دیر نہیں ھوئی کہ ہم اپنے بچوں کو محبت ادب رحم سکھا نہ سکیں .اپنی نسلوں کو ظالم .بے رحم .اور بدتمیز.بےادب ھونے سے بچا لیجیۓ محبت اور وقت دینے سے بُرے سے بُرے انسان بھی اچھے ھو جاتے ہیں سب ممکن ہے اگر ہم پکا ارادہ کرلیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں