رداامانت علی
فیصل آباد
طلاق
بیٹی کی شادی اچھے سے ہو جائے احمد نے ہر ممکن کوشش کی کہ بیٹی اپنے گھر میں آباد رہے۔
چاچوں لوگوں نے بھی اپنی بھتیجی کی شادی پر پیسہ پانی کی طرح بہا دیا۔ ناچنے والیوں کو بلایا گیا ناچ گانا کیا اور پھوپھیوں نے اپنے خاندان کی پہلی شادی پر اپنے سسرال سے ہر اک کو بلایا اور اپنی واو واہ کروانے کے لیے دکھاوا کیا
بیاہ کر آمنہ سسرال گئ
شاندار استقبال کیا گیا
ہر طرف خوشی کی لہر تھی
آمنہ دیکھنے میں چھوٹے سے قد کی اور صحت مند تھی
گھر کا کام کاج بھی سیکھ لیا کہ سسرال جا کر کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو
میاں بیوی خوشی خوشی رہنے لگے
اکثر آمنہ کو محسوس ہوتا جیسے اس کے ساتھ اس کا شوہر نہیں کوئی اور آدمی ہے
نظر انداز کر دیتی کہ شائد وہم ہے
اللہ نے خوشخبری دی آمنہ ماں بننے والی
اولاد آنے تک آمنہ کو ایک بار بھی محسوس نہ ہوا کہ اس کے ساتھ کوئی اور مرد ہے
کوئی بھی رشتے دار آتا
آمنہ کی تعریف کرتے کہ تمہارا سسر تم سے بہت خوش ہے
تمہارا سسر ہر ایک کو بتاتا کہ میرے بیٹے کی دلہن مجھے بہت خوش رکھتی میری ہر ضرورت کو۔پورا کرتی
تعریف سن کر آمنہ کے پاؤں زمین پر نہ لگتے کہ ہر جگہ سے میری تعریف ہو رہی ہے۔
سسر نے آمنہ کو کبھی ٹانگیں دبانے کا کہنا
کبھی سر دبانے کا کہنا
اور کبھی کبھی بیماری کی حالت میں کھانا کھلانے کو کہنا
آمنہ سسر کو سسر نہیں بلکہ باپ سمجھ کر ان کی ہر طرح سے خدمت کرتی کہ اس کا شوہر یہ نہ کہہ دے کہ تم میرے باپ کی خدمت نہیں کر رہی
ایک دن اچانک بجلی چلے گئ شوہر بھی گھر میں تھا اور سسر بھی
آمنہ کچن میں کام کر رہی تھی کہ پیچھے سے آکر کسی نے آمنہ کو پکڑ لیا
آمنہ نے کوئی آواز نہ نکالی
اس کو لگا جیسے اس کا شوہر ہے
پر جب شوہر کے فون۔کی گھنٹی بجی اور شوہر کی آواز سنائی دی
آمنہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئ کہ یہ کون ہے
پیچھے مڑ کہ دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا
چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا
بجلی آئی تو آس پاس دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا
آمنہ اس کو بھی وہم سمجھ بیٹھی اور اپنے کام میں مگن ہو گئ۔کچھ دن بعد بیٹے کی طبعیت خراب ہوئی ہسپتال لے کر جانا تھا تو شوہر گھر پر موجود نہ تھا
جب شوہر کو بیٹے کی بیماری سے آگاہ کیا تو اس نے باپ کو ساتھ لے جا کر دوائی لانے کا مشورہ دیا
آمنہ کرتی تو کیا کرتی سسر کا درازے پر دستک دی
آجاؤ اندر سسر نے آمنہ سے کہا آمنہ نے سسر کو ان کے پوتے کی بیماری کے بارے بتایا اور ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے کہا سسر اسی وقت تیار ہوا اور موٹر سائیکل نکالی اور ڈاکٹر کے پاس جانے لگے راستے میں سسر بار بار بریک لگا رہا تھا اور آمنہ سسر کے ساتھ چپک رہی تھی آمنہ کا دھیان اپنے بیٹے کی طرف تھا اس نے نظر انداز کیا کچھ دن بعد آمنہ کا شوہر کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا تھا گھر پر آمنہ اس کا بیٹا اور باپ تھا سسر نے آمنہ کو کمرے میں بلایا اور رونے لگ گیا کہ تمہارا ساس اچھی تھی پر میں ہی اس کو خوش نہ رکھ سکا آمنہ حیرانگی سے سسر کی بات اور ان کی حرکات دیکھ رہی تھی جب آمنہ سسر کے کمرے سے نکلنے لگی تو آمنہ کا پاؤں پھسلا اور گرنے لگی تو سسر نے سنبھال لیا آمنہ کو وہ ہی محسوس ہوا جب۔جب اس کو لگا کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر نہیں کوئی اور مرد ہے آمنہ نے شوہر کے آنے کا انتظار نہ کیا اپنے باپ بھائ کو بلایا اور اسی رات اپنے میکے آگئ اور آکر سارا واقعہ سنایا جب شوہر کچھ دن بعد گھر آیا بیوی بیٹے کو گھر میں نہ دیکھ کر غصے سے لال ہو گیا اور سسرال پہنچ گیا آمنہ نے اس کو شروع سے آخر تک ہر بات بتائ اور اس کو کسی ایک کو منتخب کرنے کو کہا پر بیٹے نے اس کی ہر بات کو غلط سمجھا اور اسے گھر ساتھ جانے کا کہا والدین نے بھی اپنی بیٹی کو گھر بسانے کا مشورہ دیا سسر نے ایسی کوئی حرکت نہ کی جس سے آمنہ کو اس پر شک ہوتا کچھ دن نہیں کچھ ماہ گزرے آمنہ گھر کے کام کر کہ تھک گئی تھی کہ بارش آگئ آمنہ چھت پر کپرے اتار کر کمرے میں گئ تو سسر کو اپنے کمرے میں دیکھ کر غصے سے لال ہو گئ اور ان کو کمرے سے جانے کا کہا پر اس دن سسر پر شیطان سوار ہو اس نے آمنہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تو شوہر بھی کام سے جلدی گھر آگیا اور باپ کو اپنی بیوی کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے دیکھ تیش میں آگیا اس نے اسی وقت آمنہ کو طلاق دی اور اس کو اس کے والدین کے گھر باعزت چھوڑ کر آگیا وہ بڑھاپے میں باپ کی کی گئی غلطی کو دنیا کے سامنے عیاں کر کہ شرمندہ نہیں کر سکتا تھا اور کسی کی بیٹی کی عزت پر آنچ آئے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا
0