رداامانت علی
فیصل آباد
نظام تعلیم
تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے بہتر طور پر اجاگر ہوتی ہے ’’علم حاصل کرو چاہئے تمہیں اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری اداروں میں طلباء بہت کم نظر آئیں گے ان کی ایک بڑی وجہ پرائیویٹ اداروں کی بھر پور مار ہے۔بین الاقوامی پڑھائی کے مد مقابل لانے کے لئے سرکاری اداروں کی جگہ پرائیویٹ اداروں کو اہمیت دی جارہی ہے۔تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جو بھی ملک یا قوم ترقی یافتہ ہے ۔وہ صرف اور صرف تعلیم کے بل بوتے پر کامیاب ہے۔ ہر ملک کی کامیابی کا دارومدار اس کی معاشی، سیاسی، معاشرتی حالت تعلیم پر منحصر ہے۔حکومت پاکستان کو چاہئے کہ تعلیمی بجٹ میں کم از کم اتنا اضافہ کرے۔ کہ پاکستان کا ہر نوجوان کم از کم بی اے تک مفت تعلیم حاصل کرسکے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہو رہا ہے جہاں پر تعلیم کا معیار نہایت پست ہے۔ ہمارے ملک میں لاکھوں،کروڑوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کیونکہ نظام تعلیم میں سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ جس میں طالب علم کو مکمل طور پر حق دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے مضامین رکھے اور اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کر سکے۔ کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر کوئی طالب علم کسی ایک مضمون میں کمزور ہے تو اس کے پیچھے طالب علم کا قصور نہیں ہےبلکہ اس مضمون کا ہے جو اس کی پسند کے بغیر اُسے پڑھنے پر مجبور کیا گیا طالب علم کو اپنی مرضی کا مضمون پڑھنے کی آزادی ہونی چاہئے ۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں ایک بڑی تفریق انگلش میڈیم اور اُردو میڈیم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ سرکاری اداروں میں تعلیم کا نظام دکھتے ہوئے غریب اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں۔ملک میں رائج نظام تعلیم کو طالب علم کے ذہنی رجحان کو مدنظر رکھ کر تعلیم دینی چاہئے۔ ہمارے ملک میں ایک اہم مسئلہ یکساں ہے ۔ہر صوبے میں یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے ہر صوبے میں الگ الگ نصابی کتب، تعلیمی معیار اور نصاب کی زبان ہے۔ جسکی وجہ سےطالب علم کو دوسروں صوبوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے صوبے جائیں تو بہت سی مشکلات ان کے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ اعلٰی تعلیم حاصل سے قاصر ہو جاتے ہیں اور اپنے وقت کا ضیاع کر کہ واپس لوٹ جاتے ہیں۔
سرکاری اداروں میں نظام تعلیم کے لئے اساتذہ کی شرح بہت کم ہے جب کہ طالب علموں کی شرح دس گنا زیادہ ہے۔ طالب علموں کے لئے عمارات کی بھی کمی ہے جس کی وجہ سے طالب علموں کے لئے ایک اچھا ماحول فضا کی کمی ہے ۔
حکومت کو چاہئے کہ طالب علموں کو درپیش آنے والے مسائل کے لئے منصوبہ بندی اس طرح سے کرے کہ نصاب کو بھی بہتر سے بہتر بنایا جا سکے یہ نہیں کہ نصاب میں ایسے موضوعات شامل کئے جائیں جو کہ نصاب سے مختلف ہو۔
اساتذہ اور طالب علموں کے لئے ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس میں بے جا تبادلے ، فرنیچر، بجلی ، پانی اور عمارات سب چیزوں کو مدنظر رکھ کر پالیسی مرتب کی جائے۔
طالب علموں کو اچھا ماحول میسر ہو، ان کی فیس بھی مناسب ہو ۔
تعلیم ایک واحد چیز ہے جسے کوئی لاکھ چاہ کر بھی نہیں چھین سکتا اور یہ ہی ملک کو بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نصاب میں بھی بہتری لائی جائے تا کہ آنے والی نسلیں اپنی صلاحتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کر سکے۔ ملک میں تعلیم کا معیار اعلی ہو گا تو ملک ترقی کی طرف گامزن ہو گا ۔
0