0

فاطمہ سے فاطمہ تک،، رداامانت علی فیصل آباد

فاطمہ سے فاطمہ تک
رداامانت علی
فیصل آباد
دن رات کے پیچ وخم میں خم کھاتی یہ زندگی خوبصورتی سے بھر پور بچپن جیسی حسین وادی سے جوانی جیسی الہڑ وادی پر پہنچ چکی ہے۔
میں ضعف کی گھاٹی میں اترنے سے پہلے ایک بے باک لڑکی جسکے ساتھ میں ہر لمحہ رہی دکھ سکھ میں حزن و ملال ہو یاخیال یار ایک باہمت و با کردار لڑکی جسے جاننے کے بعد میں دنیا کو پہچان سکی آئیے فاطمہ سے فاطمہ تک کی داستاں کے ساتھ میں آپ کو بتاتی ہوں کہ:
فاطمہ 11 اگست 1998 کو پاکستان کے شہر فیصل آباد میں پیدا ہوئی ۔ ہر بچہ اپنی قسمت ساتھ لے کر آتا ہے ۔ جیسے کہاوت مشہور ہے کہ فلاں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا ۔ فاطمہ کے دھدیال بہت ہی امیر ترین لوگ تھے۔ فاطمہ نے اپنی بڑی بہن کے ساتھ بہت سا وقت گزارا جیسے جیسے وقت گزرتا گیا فاطمہ کی دو چھوٹی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی بھی اس دنیا میں اس کی زندگی کا ایک حصہ بن گے۔ جھیل آنکھیں نہایت خوبصورت سی لڑکی جو ہر کسی کے ساتھ نہایت شگفتہ طریقے سے پیش آتی اس کے والدین نے ہمیشہ اس کو لڑکوں کی طرح رکھا اس نے لڑکوں کی طرح لباس پہنا ۔ پڑھائی میں لائق کلاس میں سب بچوں سے زیادہ اپنے اساتذہ کی پسندیدہ شاگرد فاطمہ ہی تھی ،استاد اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ایک دن اس نے اپنے والدین سے قرآن پاک حفظ کرنے کا کہا کہ میں نے قرآن پاک حفظ کرنا ہے اس کے والد نے اپنے بڑے بھائی سے بات کی انہوں نے منع کر دیا۔ اس کے والد نے اپنی بیٹی سے کہا ابھی تم چھوٹی ہو جب تھوڑی سی بڑی ہو جاؤ گی پھر تمہیں قرآن پاک حفظ کروا دیں گے ۔ وہ اسی بات پر خوش تھی کہ ایک دن وہ بھی حافظہ کہلائے گی۔ حالات کچھ اس طرح سے بدلے کہ اس نے امیری سے غریبی کی طرف جانے کا سفر اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کے تایا اور چچا لوگوں نے دولت کی لالچ میں جو کیا شائد میں بتانے سے قاصر ہوں۔ کہتے ہیں کہ جس انسان کے سب دوست ہی دوست ہوں یا پھر جس کی تعریف سب کرتے ہوں اس سے بڑا منافق کوئی نہیں ۔ فاطمہ کی تایا زاد بہن جو کہ عمرمیں اس سے بڑی تھی پر فاطمہ کو اس کی کامیابی پر دیکھ کر نا خوش ہوتی جس کا اظہار وہ سب کے سامنے بیان بھی کر چکی تھی ۔ بہر حال فاطمہ نے آٹھویں کلاس میں بورڈ کے امتحانات دینے تھے جس کے لئے سب بچوں کا ایک بے فارم لازمی بھرنا تھا۔ اس کے والد صاحب کو تاریخ اور ماہ یاد رہا پر سال کچھ آگے پیچھے ہو گئے ۔ اس کی تایا زاد بہن کو لگا کہ یہ اب امتحان نہیں دے گی کیونکہ اگر سال ٹھیک کرواتے تو اس کا سال ضائع ہو جانا تھا ۔ فاطمہ ایک با ہمت لڑکی تھی اس نے اس بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے داخلہ بھیج دیا ۔ جب امتحان کا رزلٹ آنے والا تھا تو سب کو یہی خیال تھا کہ یہ فیل ہو جائے گی کیونکہ اس نے پڑھائی میں کسی سے کوئی مدد نہیں لی۔۔ اس کی بہنیں بھائی سب پریشان تھے کہ اگر اس کا رزلٹ اچھا نہ آیا تو کہیں یہ نہ ہو کہ بڑوں کے بقول اس کو پڑھنے نہ دیا جائے ۔ کیونکہ اسکے دھدیال میں سب سے زیادہ اس وقت اس کے تایا زاد بہنیں پڑھی لکھیں تھیں۔ سب کی سوچ کچھ اور ہی جا رہی تھی۔ بس اس کو اپنے الله پر یقین کامل تھا۔ اس کا یقین جیت گیا اس نے نہ صرف اپنی تایا زاد بہن بلکہ اپنی کلاس میں بھی سب سے اچھے نمبرز لے کر دکھا دیا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
فاطمہ نے بائیک سیکھی اور اچھی طرح سے چلا لیتی ایک دن اس کے والد صاحب پیچھے بیٹھے تھے وہ سفر کر رہے تھے اور اپنی منزل سے ہو کر گھر کی طرف جا رہے تھے کہ فاطمہ سے بائیک اگلے کی بائیک میں لگ گئی جس کی وجہ اسے اور اس کے والد شدید زخمی ہو گئے فاطمہ نے اس کے بعد بائیک چلانی چھوڑ دی۔ اب فاطمہ نے نہم کلاس میں داخلہ لینا تھا اور اس کو سائنس کا نصاب رکھنا تھا کہ وہ ڈاکٹر بن سکے پر کچھ حالات سے مجبوری کی وجہ سے اس نے آرٹس رکھی اور اچھے نمبرز سے میٹرک پاس کیا جیسا کہ وہ اپنی منزل کو دیکھ رہی ہو کہ ایک دن وہ سب کو بتا سکے کہ دولت آنے جانے والی چیز کا نام ہے احساس جذبات بہت اہم ہوتے ہیں ۔ اس نے ساتھ ہی کالج میں داخلے کا کہا اپنے والدین سے اس کے والدین نے اپنی بیٹی کی خوشی کو اہم رکھا اور اس کو شہر کے کالج میں داخلہ لے دیا جہاں پر اس کو بہت اچھی اساتذہ ملیں جنہوں نے اس کی بہت راہنمائی کی وہ کالج میں ہونے والی ہر تقریب میں بھر چڑھ کے حصہ لیتی اور بہت کچھ سیکھنے کو اسے ملتا وہ ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی حصہ لیتی پھر آخر وہ دن آیا کہ اس نے انٹر بھی بہت اچھے نمبرز سے پاس کیا ۔ اس نے کبھی اپنی دوستوں کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں کی جو کہ ان کو ناگوار گزری ہو.
اس نے انٹر کے بعد آگے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی جو کہ اس کے والدین نے منظور کی پر کچھ گھریلو مسائل کی وجہ سے وہ آگے اس وقت تعلیم حاصل نہ کر سکی پر اس نے ہمت نہ ہاری اور اس نے اپنے والدین سے قرآن پاک ترجمہ تفسیر کی خواہش کی جو کہ اسکے والدین نے بھر پور ساتھ دیا اور اس نے ماشاءاللہ 6 ماہ میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا اور ساتھ ساتھ اس نے بہت سے کورس کئے جو کہ آنے والی زندگی میں اس کے اور ان لڑکیوں کے کام آ سکیں جو کسی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہوں۔ آخر ایک بار پھر سے فاطمہ دنیاوی تعلیم کی طرف گامزن ہوئی۔ اس نے گریجویٹ بھی اچھے نمبرز سے پاس کیا۔ اس نے پھر اپنے والدین سے آگے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی جو کہ پھر اس کے والدین نے منظور کی اور اس نے علامہ اقبال یونیورسٹی سے بی ایڈ میں داخلہ لیا اور بہت اچھے نمبرز سے پاس کیا. اس وقت کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو فاطمہ کا کہنا ہے کہ غریبی میں کوئی ساتھ نہیں دیتا اور امیری میں کوئی ساتھ نہیں چھوڑتا۔کربلا کا واقعہ یاد کیا جائے تو اس میں ایک بھوک پیاس بھی ہے جس کو فاطمہ بخوبی سمجھتی ہے اور اس سے زیادہ بتانے سے وہ قاصر ہے اگر آج بھی اپنے آس پاس دیکھا جائے جو کسی کو کچھ بتا نہیں سکتے کیا علم کسی کو کہ وہ بھی کربلا جیسا محسوس کر رہیں ہوں۔اس وقت یہ دیکھا جا چکا ہے کہ اس کی زندگی میں تعلیم بہت اہمیت رکھتی ہے اور ساتھ یہ جذبہ بھی کہ وہ انسانی خدمت کر سکے۔ بی ایڈ کے رزلٹ کے بعد آگے تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ کم نہ ہوا اور اس نے پھر سے اپنی خواہش ظاہر کر دی جو کہ اس کے والدین نے مسکراہٹ کے اظہار سے اسے اجازت دے دی ۔ ایک دن اس نے ٹی وی پر ایک نیوز چینل پر دیکھا کہ سرکاری میں نوکریاں آئی ہیں ۔ اس نے اپنے والدین سے بات کی شام کا وقت تھا اور اگلے دن آخری تاریخ تھی اس کے والدین نے اجازت شائد نہ بھی دیتے کہ رشتے دار کیا کہیں گے پر اپنی بیٹی کی خوشی کے لئے انہوں نے اجازت دی کس طرح سے اس سب سے پوچھ پوچھ کر کیسے ملنے کاغذات یہ سب اس نے معلومات لیں اور کاغذات لے کر آئی اور اگلے دن کاغذات کو حل کرنے کے بعد جمع کر وا دئے ابھی تک چند رشتے داروں کو علم تھا کہ فاطمہ نے سرکاری کے لئے کاغذات جمع کراوائے ہیں.
بجائے اس کے وہ خوش ہوتے اس کے بر عکس انہوں نے ڈرانا شروع کر دیا ادھر سے فاطمہ کی زندگی ایک نئے رخ کی طرف گامزن ہو رہی تھی۔ اس نے سب کی باتوں کو سنا ضرور پر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا الله نے نوکری دے دی ۔ اس نوکری کو حاصل کرنے کے بعد جو بات اس کے ذہن میں تھی وہ یہ کہ کسی غریب کی مدد کرنی تا کہ وہ ان حالات کا سامنا نہ کرے کہ رشتے داروں سے مدد مانگی جائے تو انہوں نے باتوں سے ہی مار ڈالنا ہے ۔ اس نے اپنی نوکری سے ملنے والی رقم کو جس انداز میں استعمال کرنے کا سوچا وہ قابل فخر بات ہے۔ اس نے اپنی تنخواہ سے انسانی خدمت کا سوچا اور ان تک رسائی بھی حاصل کی ۔ ساتھ ہی اس نے جو تنخواہ بچ جاتی اس کو کمیٹی میں ڈال دیا الله کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کے کم سے کم 4 لاکھ تک پیسے کمیٹی میں چلے گئے اور کچھ ماہ بعد اس کی کمیٹی نکلنی تھی کہ وہ آدمی اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس کی بیوہ بیگم نے کمیٹی دینے سے انکار کر دیا آج کے دور میں کسی کا ایک پیسہ بھی ادھر سے اٌدھر ہو جائے تو لوگ کس طرح سے کرتے ہیں اللہ کا شکر ادا کیا اس نے کہ ہو سکتا ہے وہ رقم اس کے حق میں بہتر نہ ہو.اس کی نئ زندگی نوکری کے حوالے سے بات کی جائے تو سب ہی بظاہر اچھے لگ رہی تھیں پر ایک بار دو لڑکیوں کی آپس کی رنجش میں اس نے سچ کا ساتھ دیا اور دوسری لڑکی نے اس بات کو اپنے دماغ میں کہیں رکھا ہوا تھا۔ جب وہ سب ایک وین میں لاہور جا رہی تھیں تو اس لڑکی نے بہانے سے فاطمہ کو وین سے اترنے کا کہا جو لڑکی کبھی اپنے خاندان رشتے داروں کے علاوہ کہیں گئ نہ ہو ۔ اس کو چلتی وین سے اترنے کا کہا جائے وہ سردیوں کی رات میں اس پر کیا گزر رہی ہو گی وہ آج تک اس بات کو اپنے دماغ اور دل سے نہیں نکال سکی الله جو کرتا بہتر نہیں بہترین کرتا ہے۔ اس بات پر اس کا یقین کامل تھا بہر حال وہ یاد کر کہ آج بھی وہ اسی طرح زارو قطار روتی ہے پھر بھی وہ اس واقعے کو اللہ کی آزمائش سمجھ کر صبر کیا۔ اللہ انصاف کرتا ہے کچھ دن نہیں گزرے کے جس وین کا کحہ کر اسے اتارنے کا کہا گیا اس وین میں کوئی ایک بھی نہ جا سکا نہ آسکا لوگوں کی اصلیت نظر آگئی ۔اس نے ہمت نہ ہاری اور اکیلے آنے جانے لگی الله پر اس کا یقین کامل تھا ہے اور رہے گا۔
اس کی آنکھ سے نکلا آنسو کب الله کو پسند آ گیا کہ الله سے اس نے دعا کی کہ یا الله مجھے ہر برے انسان سے دور رکھنا اور ثابت قدم رکھنا الله کو اس کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ آج لوگ اس کو اس وجہ سے نہیں جانتے کہ فلاں کی بتھیجی ہے یا بھانجی ہے بلکہ اس کے کردار اس کی انسانی خدمت کرنے سے جانتے ہیں اس نے کھیلوں میں پوزیشن لی اور اس کی کامیابی کا سارا اعزاز اپنے والدین کو دیا وہ ایک با ہمت لڑکی ہے ۔ جس نے اپنی زندگی میں ہر کام ایمانداری سے کیا الله کا کرنا ایسا ہوا کہ جن کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسؤ آئے تھے جب ان کو ضرورت اس کی محسوس ہوئی تو فاطمہ نے سب کچھ بھلا کہ ان کی مدد کی پر وہ آج تک بات نہیں بھول سکتی۔اس کے اندر انسانی خدمت کرنے کا جذبہ کم ہونے کی جگہ بھرتا گیا۔ فاطمہ ایک لکھاری کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ وہ پاکستان اور دوسرے ممالک کے اخبارات میں اس کا لکھا شائع ہوتا ۔ اس کی لکھی ہر تحریر میں ایک سبق ہے جو کہ اسے سب سے منفرد کرتا ہے وہ اپنی چھوٹی سی عمر میں کئ فلاحی اداروں کے ساتھ کام کر رہی ہے اس نے سیلاب سے متاثرین لوگوں کی امداد کی اور اپنے قلم کے ذریعے بہت سے اداروں کو ایسے علاقوں کی نشاندہی کروائی جہاں پر رسائی نا ممکن تھی ۔ فاطمہ بچوں کو دینی تعلیم دینے میں بھی پیچھے نہیں رہی اس نے واٹس ایپ گروپس میں بچوں کو دینی تعلیم دے رہی ہے ان کو مختلف کورس کروا رہی ہے کہ وہ بھی زندگی میں آگے بڑھیں. فاطمہ انسانی خدمت کرنے سے کبھی پیچھے نہیں رہی اس نے ایک کیس دیکھا جس میں اس کے اپنی قریبی رشتے کو خون کی اشد ضرورت تھی ۔ اس نے اس قصے کو اپنے دماغ میں بٹھا لیا کہ انسانی خدمت کے لئے کچھ اور کیا جائے اب وہ کم سے کم 7 گروپس میں ایڈ ہے اور لوگوں تک خون فی سبیل اللہ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ فاطمہ کی یہ خواہش کہ وہ اپنے وطن عزیز کے لئے کچھ کر سکے اور انسانی خدمت کر سکے اور اس کے والدین کا سایہ ہمیشہ اس پر سلامت رہے۔
( آمین)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں