کاربن نینو ٹیوبز!
مصنفہ: حفصہ بٹ عدن
بیسویں صدی کی آخری دہائی سے پہلے تک زمین پر کاربن دو مادی حالتوں ڈائمنڈ اور گریفائٹ میں موجود تھا۔ 1991 میں جاپانی ماہرِ طبیعات، سومیو ایجیما کسی تجربے میں مصروف تھا کہ اس کی مائکروسکوپی آنکھ نے سیاہ بادلوں کو بنتے دیکھا۔ تجسس نے انگڑائی لی ۔ ٹرانسمیشن الیکٹرون مائکروسکوپ نے دکھایا کہ وہ ایک کاربن کی نئی قسم دریافت کر چکا ہے جسے اس نے کاربن نینو ٹیوبز کا نام دیا۔ درحقیقت یہ گریفائٹ کی مسدس حالت تھی مگر اس کی خصوصیات دنیا کی کسی دھات میں موجود نہیں تھیں۔ یہ دنیا کی سب سے سخت دھات ہیرے جیسی سخت مگر وزن میں انتہائی ہلکی ہے۔اس کا استعمال ہوائی جہازوں اور خلائی طیاروں کا وزن تیس فیصد سے زیادہ کم کر سکتا ہے۔ سب سے مضبوط دھات اسٹیل سے دس گنا زیادہ ٹھوس ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی لچک دار ہے کہ بغیر مڑے تڑے یا خراب ہوئے اپنی اصل ہئیت سے 20 فیصد زیادہ کھینچی جا سکتی ہے ۔ بجلی کی تاروں میں عام استعمال ہونے والے بہترین کنڈکٹر کوپر سے زیادہ اچھی کنڈکٹر ہے، اتنی کہ اربوں ایمپئیرز برقی توانائی اس کی بنی تاروں میں سے گزاری جا سکتی ہے۔
گرمائش کو جذب کرنے کی اہلیت بھی اسٹیل سے بیس گنا زیادہ ہے۔ گرمیوں میں اس سے برقی تاریں، پُل اور ریلوے ٹریکس بنائے جا سکتے ہیں۔ جس پر زنگ لگنے کا بھی خدشہ نہ ہو گا۔
یہ ٹیوبز بلٹ پروف جیکٹس اور گاڑیوں میں بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔ 9MM بلٹ کو روکنے کی صلاحیت پائی گئی ہے۔
بائیو سینسر کے طور پر اس کا کام گراں قدر ہے۔ ماحول میں کثیر تعداد میں پھیلی کاربن ڈائی آکسائڈ کو نہ صرف محسوس کر سکتی ہے بلکہ اس کو روکنے کے لیے صنعتوں میں فضلہ نکلنے کی جگہ پر نصب کیا جا سکتا ہے۔ سی این ٹی کاربن ڈائی آکسائیڈ فلٹر کر کے اپنے اندر سمو سکتی ہے جسے بعد ازاں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے استعمال کے طریقوں پر سائنسدان کچھ حد تک تحقیق کر چکے اور کچھ جاری ہے۔
سولر پینل میں مستعمل فلم جس میں سوراخوں کی صف بندی ہوتی ہے جو بجلی بنانے کے لیے روشنی کے ٹکڑوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر یہ شدید گرم ہو کر اپنی کارکردگی چھوڑ جاتے ہیں۔ کنگ عبداللہ یونیورسٹی کے طلباء نے ایک کیلشیم کلورائیڈ کا پولیمر بنایا جس سے مادہ ہوا میں موجود نمی کو جذب کر کے پھیل جاتا۔ ان پولیمرز کے ساتھ کاربن نینو ٹیوبز کو ملانے سے یہ کام معکوس ہو گیا۔ جب یہ سریش نما مادہ سولر پینل کی پشت پر لگایا گیا تو اس نے رات کو مرطوب ہوا سے نمی جذب کی اور دھیرے دھیرے دن کے سلگتے لمحوں میں خارج کی۔ اس طرح درجہ حرارت دس درجے کم ہوا اور پینل کی کارکردگی میں بیس فیصد اضافہ ہوا۔
رینیون لی کہتے ہیں ” ہمیں یقین ہے کہ اس کولنگ ٹیکنالوجی کا استعمال بہت سی ضروریات پوری کر سکتا ہے کیونکہ پانی کے بخارات ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور اسے مختلف پیمانوں پر ڈھالنا قدرے آسان ہے”
ایجیما کی یہ ایجاد، ٹیکنالوجی پر احسانِ عظیم ہے۔ ماحول کو بچانے کے لیے ایک حفاظتی خول کی ضرورت درپیش تھی۔ کسی حد تک کاربن نینو ٹیوبز کا استعمال اردگرد پھیلی سب سے بڑی گرین ہاؤس گیس کاربن ڈائی آکسائڈ کو قابو میں کر سکتی ہیں۔
اگرچہ ترقی پذیر ممالک روٹی کپڑا اور مکان سے باہر نہیں نکل پائے، مگر ترقی یافتہ ممالک میں اس کا استعمال بڑھا دینا چاہئیے۔ امریکا، چین، جاپان، جنوبی کوریا، جرمنی، فرانس، برطانیہ، برازیل، انڈیا اور روس میں اس پر ریسرچ اور کام تیزی سے جاری ہے۔ خصوصاً چین، جاپان اور جنوبی کوریا میں کمپنیاں سی این ٹی سے اشیاء بنا رہی ہیں۔
سعودی عرب کا، بحرِ احمر کے ساحل کے قریب میگا سٹی پروجیکٹ “نیوم” کی منصوبہ بندی بھی یہ کہتی ہے کہ وہاں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ یہ بالکل غیر یقینی سا لگتا ہے کہ وہ کاربن نینو ٹیوبز کا استعمال نہیں کریں گے۔ اس صورت میں اس صنعت کو بڑھاوا ملے گا اور اس دھات کی مانگ عالمی منڈی میں بڑھنے کا امکان ہے۔