0

اولاد انمول تحفہ،، رداامانت علی فیصل آباد

رداامانت علی
فیصل آباد
اولاد انمول تحفہ
آج ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہم باتیں بہت بہت بڑی کرتے ہیں ۔ تعلیم حاصل کر کہ ایک اچھی نوکری کر رہے ہیں ۔
محبت بھی کرتے ہیں پر جب بات شادی پر آجائے تو ذات پات امیری غریبی سب کچھ یاد آجاتا ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ ایک اونچی ذات سمجھنے والے امیر گھرانے لڑکے کی ہے۔
لڑکے کی شادی اس کی اپنی ذات میں کر دی جاتی ہے اور لڑکے کی یہ سوچ ہوتی ہے بیوی خوبصورت ہو یا نہ ہو پر امیر کبیر ہونی چاہئے سسرال اور سالے بھی اچھے خاصے ہونے چاہئے ۔ شادی کے ایک دو ماہ بعد ہی دلہن سے سب کو خوشخبری سننے کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں کب خوشخبری سنا رہی ہو۔
شادی کے بعد اپنی خواہشات کو جیسے دبا دیا جائے کہ اولاد کیوں نہیں ہوئی۔
اولاد الله کی دین ہوتی ہے
اس کے لئے عورت کو طنز کرنا اور اس کو ایک ایسی عورت کے طور پر باتیں کسنا کہ جیسے اولاد نہ ہونے پر اسی کا قصور ہو۔ ڈاکٹر سے علاج کروایا جاتا ہے کہ کمی اسی میں ہے ہمارے بیٹے میں کوئی کمی نہیں ۔
لڑکی کو بار بار بانجھ کہنا اور اس کے سامنے ساس صاف شفاف الفاظ میں کہ دیتی ہم اپنے بیٹے کی دوسری شادی کر رہے ہیں کیونکہ تم سے اولاد کی امید تو ہمیں اب نہیں ہے۔
اپنے بیٹے کے لئے نئے نئے رشتے دیکھے جاتے ہیں کہ ہمارا بیٹا صاحب اولاد ہو ۔
یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اگر لڑکی کا معائنہ کروایا جا رہا ہے تو ایک بار اپنے بیٹے کا معائنہ بھی کروا لیا جائے کہ کمی کہیں ان کے بیٹے میں تو نہیں ہے ۔
لڑکی اپنے گھر بتاتی ہے تو لڑکی کا بھائی جو اچھی نوکری کر رہا ہوتا ہے وہ اپنی بہن کے گھر آتا ہے اور اپنی بہن کی جیٹھ سے گلی میں جاتے ہوئے گفتگو کے درمیان ایک سال کا وقت مانگتا ہے اور اس کے پاؤں پکڑنے تک جاتا ہے کہ اس کی بہن پر رحم کھا لیا جائے۔
لڑکی روتی ہے کہ اللہ نے اسے اولاد جیسی انمول دولت سے کیوں محروم رکھا ہے۔
لڑکی اپنی بہن بھائی کی اولاد کو گود لینے کا فیصلہ کرتی ہے کہ اس کی پرورش وہ کرے گی اور اس کو ماں بننے کا سکھ اور شوہر کو باپ بننے کا سکھ نصیب ہو سکے ۔
لڑکے کے گھر والوں کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بیٹے کی کمائی کسی اور کے بچے پر خرچ کی جائے اور بعد میں وہ جائیداد کا حقدار بن جائے۔
یہ کسی کو سوچ نہیں آئی کہ اس لڑکی کی کیفیت کا اندازہ کر سکیں کیونکہ لڑکی پیچھے سے ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اس لئے اس کے بھائی کی بات اس شرط پر مان لی جاتی ہے کہ ایک سال تک اولاد نہ ہوئی تو وہ اپنے بھائی کی دوسری شادی کر لیں گے۔
ایک سال کا وقت جیسے بہت جلدی سے گزر رہا ہو ۔
سسرال والے خاص طور پر نندیں ساس کے کان بھر رہی ہوں کہ اتنی خوبصورت بھی نہیں ہے اور بھانجھ ہے طلاق دے کر فارغ کریں اور نئی بھابھی لے آتے ہیں ۔
لڑکے کی بڑی بھابھی کو اللہ نے چوتھی اولاد عطا کی تو لڑکی نے اپنے شوہر سے کہا کیوں نہ ہم تمہارے بھائی کی اولاد کو اپنی اولاد بنا لیں ۔
لڑکے نے گھر والوں سے بات کی اور سب مان گئے کیونکہ لڑکے کی نوکری بھی بہت اچھی اور جائیداد بھی بہت بنا رکھی ہے تو لڑکے کے بھائی اور بھابھی نے اپنا بیٹا دے دیا کہ جائیداد بھی ہماری اور بیٹا بھی ہمارا۔
اولاد الله کی طرف سے انمول تحفہ ہے کبھی وہ دیکر آزماتا ہے اور کبھی لیکر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں