امریکہ (ویب ڈیسک) بحر اوقیانوس کی تہہ میں موجود ٹائی ٹینک کے ملبے کی جانب جاتے ہوئے گم ہونے والی آبدوز ٹائٹن کی تلاش کا کام جاری ہے۔نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق ٹائٹن 18 جون کی دوپہرنیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحلی علاقے سینٹ جون سے روانہ ہونے کے ایک گھنٹے 45 منٹ بعد لاپتہ ہوگئی تھی۔اس آبدوز میں 2 پاکستانی شہریوں سمیت 5 افراد موجود ہیں۔بنیادی طور پر یہ آبدوز نہیں بلکہ اس جیسی submersible کشتی ہے جو زیرآب سفر کر سکتی ہے۔اس میں ایک پائلٹ اور 4 دیگر افراد سفر کر سکتے ہیں جو عموماً ماہرین ہوتے ہیں یا ایسے سیاح، جو اس مہنگے سفر کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔اسے ٹائٹینیم اور کاربن فائبر سے تیار کیا گیا ہے جس کی لمبائی 6.7 میٹر ہے جبکہ وزن 10 ہزار 432 کلوگرام ہے۔اسے تیار کرنے والی کمپنی اوشین گیٹ کے مطابق یہ سمندر کی 4 ہزار میٹر گہرائی میں جانے کی صلاحیت رکھتی ہے، خیال رہے کہ ٹائی ٹینک کا ملبہ 3800 میٹر گہرائی میں موجود ہے۔سمندر کی گہرائی میں جانے کے لیے یہ 4 الیکٹرک thrusters استعمال کرتی ہے جبکہ سمندری ماحول کی کھوج کے لیے کیمروں، روشنیوں اور اسکینرز سے لیس ہے۔ٹائٹن کے اندرکسی منی (mini) وین جتنا بڑا کیبن ہے، جس میں لوگ موجود ہوتے ہیں۔کمپنی کا کہنا ہے کہ ٹائٹن سے سمندر کا ویو پورٹ (جس سے سمندر کو دیکھا جا سکتا ہے) اس طرح کی کسی بھی submersible میں سب سے بڑا ہے۔اسے پلے اسٹیشن جیسے ایک کنٹرولر سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔زیرآب جانے کے بعد باہری دنیا سے رابطے کے لیے یہ ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک کی سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتی ہے۔چند دن قبل کمپنی نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ سمندر کی گہرائی میں موبائل ٹاورز موجود نہیں تو ہم رابطوں کے لیے اسٹار لنک پر انحصار کرتے ہیں۔ٹائٹن میں 96 گھنٹوں کی آکسیجن سپلائی موجود ہوتی ہے۔اوشین گیٹ کے عہدیدار ڈیوڈ Concannon کے مطابق ٹائٹن میں آکسیجن سپلائی جمعرات کی صبح تک موجود رہے گی، تاہم سانس لینے کی رفتار سے یہ وقت کم ہو سکتا ہے۔اسی طرح ایک ٹوائلٹ جیسا خلا موجود ہے۔پانی میں غوطہ لگانے پر ٹائٹن کو بحری جہاز پولر پرنس سے نیوی گیشن کی ہدایات ٹیکسٹ میسجز میں ملتی ہیں۔اس جہاز کا عملہ ٹائٹن کی لوکیشن کو مانیٹر بھی کر رہا ہوتا ہے۔اسی جہاز سے ٹائٹن کا رابطہ غوطہ لگانے کے بعد منقطع ہوا تھا جس کے بعد سے اس کو تلاش کیا جا رہا ہے۔اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ٹائٹن کے ساتھ کیا ہوا مگر ماہرین نے متعدد ممکنہ خیالات پیش کیے ہیں۔
0