رداامانت علی
فیصل آباد
نوجوان
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور سمجھ بوجھ عطا کی ہے۔ کوئی بھی بچہ پیدائش سے بُرا نہیں ہوتا۔ اس کو ماحول حالات بُرا بنا دیتے ہیں ۔
دور حاضر میں لڑکا ہو یا لڑکی جوانی میں قدم رکھتے ہی خود کو آزاد سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں ان کو کسی غلط کام سے روکنے والا انسان ان کے لئے ایک ایسی رکاوٹ کی مانند ہوتا ہے جیسے کہ اس انسان کی وجہ سے ان کی زندگی تباہ و برباد ہو رہی ہو۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک لڑکی نہ چاہئے کوئی بھی لڑکا اپنی حد پار نہیں کر سکتا۔ لڑکا ہو یا لڑکی ایک دوسرے کا استعمال اس طرح سے کر رہے ہیں جیسے کہ وہ ان کی زندگی کا ایک اہم مقصد ہو۔ دنیا مکافات عمل ہے، انسان جو بوئے گا وہی کاٹے گا۔
ہزار ملیں گے تمہیں راستے میں بھٹکانے والے
اے بنت حوا
خود کو پختہ رکھنا اپنی حیا بچانے کے لئے
ہم انسان کو اللہ تعالٰی نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے ۔ جس میں ہم اپنی زندگی میں ایسے کام سر انجام دے سکیں کہ الله کے حضور جب ہم پیش ہوں تو سر شرمندگی سے نہیں بلکہ احترام میں جھکا ہو۔
پاک مردوں کے لئے پاک عورتیں
اور
پاک عورتوں کے لئے پاک مرد
یہ رب کریم کا وعدہ ہے
جس سے انکار کرنا کفر ہے
فاطمہ ایک خوبصورت لڑکی کہ ساتھ ساتھ ایک پڑھی لکھی لڑکی۔ فاطمہ احمد نامی لڑکے سے اتفاقاً ایک نوکری والی جگہ پر ملی۔احمد فاطمہ سے دوستی کرنے کے لئے ہر جتن کرتا کہ کسی طرح فاطمہ اس سے دوستی کر لے۔ کہتے ہیں کہ برا وقت آنے میں دیر نہیں لگتی کچھ ایسا ہی فاطمہ کے ساتھ ہوا۔ ایک دن فاطمہ کو احمد سے کچھ کام کے سلسلے میں بات کرنا مجبوری بن گئی۔ احمد بہت خوش ہوا کہ کسی بھی طرح کم سے کم فاطمہ نے بات تو کی۔ احمد نے فاطمہ کے سامنے اچھا بننے کی ہر وہ ممکن کوشش کی جس سے فاطمہ مجبور ہو جائے احمد سے بات کرنے میں۔احمد نے خود ہی اس سے بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش کرنی اور فاطمہ اسے نظر انداز کرتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ جب تک عورت نہ چاہے مرد دیکھ نہیں سکتا اسی طرح مرد کے پاس بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں کہ وہ عورت کے دل تک پہنچنے کے لئے ہر وہ راستہ اپنائے جس سے عورت نرم۔دل ہو جائے۔آخر احمد اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اور فاطمہ احمد سے پیار کرنے لگ گئی احمد جو بظاہر شریف اور معصوم نظر آتا پر حقیقت اس کے بر عکس ہی منظر پیش کر رہی تھی۔ فاطمہ احمد کی ہر ایک بات پر آنکھیں بند کر کہ یقین کر لیتی ہے ۔احمد جس طرح سے کہے فاطمہ اس کی ہر بات مانتی ہے احمد کی خوشی کے لئے وہ ہر ایک قدم اٹھا لیتی ہے۔ جس کا نتیجہ سوائے رسوائی کے کوئی نہیں ہوتا۔ احمد فاطمہ کی تعریف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا اور اس کو احساس دلاتا ہے کہ اس کی زندگی میں اس کی کس قدر اہمیت ہے۔ فاطمہ اپنے دماغ سے کام نہ لیتے ہوئے پاگلوں کی طرح احمد کہ جھوٹے پیار کو سچ مان لیتی ہے۔ پیار کرنا غلط نہیں ہے لیکن پیار میں ایک دوسرے کی عزت کرنا اور اس کو اپنی عزت بنانا ہوتا ہے ۔احمد کو جب اچھے سے یقین ہو جاتا ہے۔ کہ فاطمہ اس کی محبت میں کچھ بھی کر سکتی ہے تو احمد اپنی کچھ دیر کی تسکین کے لئے اس کا استعمال کرتا ہے ۔فاطمہ احمد کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ سب غلط ہے۔ احمد فاطمہ کو آگے سے کہتا لوگ پیار میں ناجانے کیا کچھ کر جاتے ہیں اور تم میری یہ چھوٹی سی بات نہیں مانتی ۔ تمہیں مجھ پر یقین نہیں۔ صحیح ہے تم نہ کرو مجھ پر یقین مجھ سے بات نہ کرنا ۔فاطمہ یہ سب سن کر خاموش ہو جاتی ہے اور احمد سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کہیں انجانے میں وہ غلط راستے کی طرف تو نہیں چل پڑی۔کچھ دن گزرتے ہیں تو احمد فاطمہ سے رابطہ کرتا ہے اور کہتا ہے میں معذرت کرنا چاہتا ہوں کہ تم صحیح لڑکی ہو۔ فاطمہ خوش ہو جاتی ہے اور اسے سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کرتی ہے ۔ ایک دن احمد فاطمہ سے کہتا ہے کہ جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو بہت کچھ بدل گیا ہے میں الله کے قریب ہو گیا ہوں ۔ تمہارے اصرار کرنے پر میں نماز کی طرف آگیا ہوں۔
فاطمہ کی خوشی کی انتہا نہ ہوئی کہ احمد اس کی بات مانتا ہے اور خود کو برائی کے راستے کی طرف سے روک لیا پر حقیقت اس کے برعکس تھی ۔
احمد فاطمہ کا اپنے اوپر یقین پختہ کرنے کے لئے اس کو احساس دلاتا کہ وہ اس کی زندگی میں بہت اہم ہے۔ آج کل موبائل فون پر دور بیٹھے انسان سے آپ بات کر سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ احمد فاطمہ پر شک کی نگاہ رکھتا وہ کسی سے بات کرے کسی کہ ساتھ جائے تو فاطمہ سے کہتا وڈیو کال کرو، آڈیو کال کرو اور مجھے سکرین شاٹ بھیجو کس سے بات کی کیا بات کی۔ فاطمہ کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے پر احمد اس کو یہ کحہ کر بات ٹال دیتا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لئے پرواہ کرتا ہوں کیونکہ لوگ بہت گندے ہیں کسی پر یقین نہیں کر سکتے۔
فاطمہ خوش ہو جاتی کہ کوئی اتنا بھی کسی سے پیار کر سکتا ہے کہ جس قدر احمد میرا خیال رکھتا ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے احمد جیسا پیار کرنے والا ملا۔ فاطمہ احمد سے کچھ نہیں چھپاتی اس کو ہر ایک بات بتاتی کیونکہ وہ احمد پر اندھاپن یقین کرتی۔
احمد اپنے مطلب کے لئے فاطمہ کا استعمال کر رہا اس کے بارے بہت سے لوگوں نے فاطمہ کو بتایا اور فاطمہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ۔ جب احمد نے فاطمہ سے اس کے چپ ہونے کی وجہ پوچھی تو فاطمہ نے بات بتا دی کہ اس شخص نے تمہارے بارے یہ بات بتائی ہے اس میں کتنی صداقت ہے یہ تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں بتا سکتا۔
احمد نے کہا میری تربیت بہت عظیم بھائیوں بہنوں اور ماں نے کی ہے میں ایسا نہیں ہوں ۔ وہ لوگ تمہیں میرے خلاف کر رہے ہیں کہ تم مجھ سے دور ہو جاؤ۔
فاطمہ احمد کی بات پر یقین کر لیتی ہے ۔ احمد فاطمہ کو بتاتا کہ اس کا بھائی جو باہر کے ملک رہتا ہے وہ بہت اچھا ہے اس سے کوئی انجان بھی مدد مانگے وہ اس کی بھی مدد کرتا ہے ۔فاطمہ خوش ہوتی کہ احمد ایک اچھا انسان ہے ۔ پر وہ فاطمہ کی آنکھوں کا دھوکہ ہوتا ہے۔
احمد فاطمہ کو بار بار کچھ ایسا کرنے کا کہتا جس کا انکار فاطمہ کر دیتی پھر احمد فاطمہ کو اپنے دوستوں کی باتیں بتاتا کہ کس طرح سے اس کے دوست کرتے ہیں۔احمد کے دوستوں میں یہ بات بہت عام تھی کہ کسی کی بھی بہن بیٹی کے ساتھ اپنی تسکین کے لئے وقت گزارنا۔ احمد کے کچھ دوستوں کے نام ق، م ، و، ق،ح، ا گ، ا، ا، ع اور ز جو کہ احمد کو بھی ورغلاتے اور اپنی اپنی ان دوستوں کے بارے میں بتاتے جن کے ساتھ وہ پیار کا کھیل کھیلتے ،ان کا استعمال اپنی تسکین کے لئے کرتے پھر ان کو اس طرح سے چھوڑ دیتے جیسا کہ ان کے لئے وہ انجان ہوں ۔ فاطمہ احمد کو ایسے دوستوں سے دور رہنے کا مشورہ دیتی تو احمد غصے میں آجاتا کہ میں اپنے دوستوں سے دور نہیں رہ سکتا ۔ فاطمہ کہتی پھر مجھ سے دور ہو جاؤ ۔ احمد کہتا یہ بھی نا ممکن ہے کہ میں تم سے دور رہ نہیں سکتا۔ تم میری جان بن گئی ہو۔ ایسے الفاظ جب احمد کہتا فاطمہ پگھل جاتی اور کہتی تم اپنے دوستوں کی ایسی کسی بات میں آکر کچھ غلط نہ کر لینا۔احمد آگے سے چپ رہتا۔احمد ايک امير گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔دونوں میں محبت گہرى ہوتى چلى گئی۔ احمد نے ايک دن فاطمہ سے کہا کہ فاطمہ مجھے تم سے اس قدر محبت ہو گئی ہے کہ تمہارے بنا جینے کا سوچتا ہوں تو دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے احمد کا فاطمہ سے اظہار عشق کی وجہ سے فاطمہ پھولے نہ سمائے۔احمد فاطمہ سے کہتا کہ تم کوئی ايک اچھى سى نوکرى کر لو تا کہ میں اپنے گھر والوں کو منا سکوں قسمت کا کرنا يہ ہوا کہ دونوں ايک دوسرے کے ساتھ زندگى گزارنے کے خواب ديکھنے لگے۔فاطمہ ايک اچھى نوکرى کى تلاش کرنے لگ گئی۔پھر ایسا وقت آیا۔ جب احمد ایسا کچھ کر دیتا ہے کہ احمد اور فاطمہ دونوں کے لئے مرنے کا مقام ہوتا ہے ۔احمد اس وقت اپنی بہن کو بات بتاتا ہے کہ وہ اس کی مدد کرے۔ فاطمہ سب باتوں سے انجان اندھاپن احمد کی ہر بات پر یقین کرتی ہے۔ اسى دوران احمد کى بھابھى نے ايک رشتہ ديکھا لڑکى فاطمہ سے زيادہ پڑھى لکھى تھى اس لڑکى کو ايک اچھى سى نوکرى مل سکتى تھى یا وہ احمد کو لیکر باہر کے ملک میں رہ سکتی تھی۔اس لئے احمد کے گھر والوں نے اس کا ر شتہ اس لڑکى سے کر ديا فاطمہ روتى رہی احمد جس نے فاطمہ سے وعدہ کيا تھا کہ وہ اس سے شادى کرے گا وہ بھى سب بھول گيا فاطمہ کا اعتبار ٹوٹ چکا تھا۔وہ تو جیسے پل بھر میں بکھر ہی گئی تھی۔اس کے دل میں جو امنگیں پھوٹیں تھیں وہ دم توڑ گئی ہوں۔احمد کی بہن جو کہ خود شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں اور الله نے اُسے ایک بیٹی عطا کی ہے۔ وہ فاطمہ کا ساتھ دینے کی بجائے جس کو رسوا کیا گیا بلکہ اپنے بھائی کی باتوں میں آ کر اس فاطمہ کو سمجھاتی ہے کہ چپ رہو۔ احمد اور اس کی بہن اس وقت تک فاطمہ کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں جب تک ان کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا ۔فاطمہ اس کی بڑی بہن سے بات کرتی ہے تو آگے سے اس کی بہن کہ تم چھوٹی ذات کی ہو غریب گھرانے سے ہو۔
ذات کیا ہے ۔ہم اس دنیا میں ذات اپنی پسند سے لے کر آئے ہیں کیا؟ ہمیں فخر اس بات کا ہونا چاہئے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے ہیں جہاں پر اسلام کی بہت اہمیت ہے ۔اس وقت ذات کدھر تھی جب اپنی تسکین کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ جب شادی کی بات آئی تو ذات یاد آ گئی ڈرو اس وقت سے جب الله کے ہاں پکڑ ہو گی اس دنیا میں تو تم امیر ترین آدمی بن جاؤ گے سب لوگوں کے سامنے اپنی عزت بنا لو گے پر اٌس جہاں میں کیا کرو گے جیسے تمہارے لئے اس جہاں میں آج ذات اہم ہے کسی کی زندگی برباد کر کہ اسی طرح اُس جہاں میں انصاف ہو گا میں پوچھتی ہوں آپ سب لوگوں سے آپ سب اپنے بچوں کو ذات کے بارے میں جتنا بتاتے ہیں اتنا ہی اگر یہ بتا دیا جائے کہ کسی کی بہن بیٹی کی عزت کرنا کتنا اہم ہے اس کے علاوہ ان کا استعمال کرنا وہ بھی اپنی تسکین کے لئے۔ جب ہم اپنے گلی محلے شہر ذات کی وجہ سے نہیں چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جاتے کہ یہ گلی محلہ شہر ہماری ذات کا نہیں تو پھر ہم کیوں دوسروں کے جذبات کا قتل عام ذات لفظ سے کر دیتے ہیں بہت عام سی مثال ادھر پیش کر رہی ہوں ہم لوگ جب بیمار ہوتے ہیں تو کیا ہم نے ڈاکٹر سے کہا کہ آپ ہمارا علاج نہ کریں کیونکہ ہم نے علاج اپنی ذات والے ڈاکٹر سے ہی کروانا ہے یا ہم بازار جاتے ہیں کھانے پینے کی اشیاء کپڑے لیتے ہیں کیا کبھی وہاں کسی سے پوچھا کہ آپ کس ذات سے ہیں ہم نے تو بس اپنی ذات کے لوگوں سے ہی چیزیں خریدنی ہیں ۔ اگر شادی ذات کے باہر کر لی لوگ کیا کہیں گے پر ذات کے باہر ہم دوسروں کی بہن بیٹی کے ساتھ اپنی تسکین حاصل کر سکتے ہیں بہت افسوس سے ساتھ یہ کحہ رہی ہوں ہم نے ذات امیری کا محض بہانہ بنا کر دوسروں کو اذیت دینے کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ایسے شخص کے ساتھ غداری کتنی بُری ہے جس نے خود کو تُمہارے سپُرد کیا ہو اور آخر میں تُم اُس کو چھوٹی ذات اور غریب ہونے کی وجہ سے رابطہ ختم کر دو، اُسے ایک نفسیاتی مریض بنا دو اور پھر کہو کے مجھے اب آزاد کر دو۔ مجھے میری زندگی جینے دو اور تم بھی جا کر اپنی زندگی جیو۔
کچھ لوگ ہمارى زندگى میں اس طرح سے آتے ہیں۔ کہ ہميں سبق سيکھا جاتے ہیں۔اس کے بعد ہم کسى اور پر يقين نہیں کر سکتے، لیکن احتياط ضرور کرتے ہیں۔ہر کوئی يہ کہ کہہ ديتا ہے ہم پر يقين کر کہ ديکھيں لیکن ایک دفعہ اگر اعتبار ٹوٹ جائے تو پھر کسی پر نہیں کیا جا سکتا۔جب ان کو اپنا مقصد مکمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ احمد کی شادی جس سے ہو رہی ہے وہ احمد سے عمر میں بھی بہت بڑی ہے ۔ احمد فاطمہ کے پاس آکر روتا اور کہتا گھر والوں نے اس پر ظلم کر دیا ۔ وہ ان کی ذات کی ہے اور وہ لڑکی ان کے بھائی کے لئے ایک ایسا ذریعہ ہے جو کہ ان کے بھائی کو باہر کے ملک لے جانے میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ احمد نے فاطمہ سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی سے بات کرے گا تا کہ میں تمہیں سب کے سامنے اپنا بنا سکوں۔ تم سے شادی کروں گا بس میرا انتظار کرو اور میرا ساتھ دو تا کہ ہم اس صورتحال سے نکل سکیں۔ فاطمہ اپنی زندگی ختم کرنے والی تھی پر احمد کی باتوں نے گویا اسے ایک امید دی ہو۔ بہرحال احمد نے شادى کر لى۔ فاطمہ اسکی شادی پر گئی۔ احمد کی شادی کے وقت اس کی بہن نے بھی وعدہ کیا کہ فاطمہ کسی سے کچھ نہ کہنا میں خود سب گھر والوں سے بات کروں گی اور تم میری بھابھی بنو گی ۔ فاطمہ کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ بس فاطمہ کو بیوقوف بنا رہے ہیں ۔ شادی ہو جانے کے بعد آنکھوں پر پیسوں کے پٹی باندھ دی گئی ہو۔
کیا قصور تھا فاطمہ کا جس کو محبت میں پھنسا کر اس کا استعمال اپنے نفس کے لئے کیا گیا اور جب اپنا مقصد کسی دوسری لڑکی کی صورت میں نظر آنے لگا تو زمانے بھر میں رسوا کرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ فاطمہ نے ناجانے اُس کے اپنوں کتنی بار بات بتانے کی کوشش کی ہو پر کسی نے اس کی ایک نہ سنی کیونکہ فاطمہ ایک غریب گھر اور چھوٹی ذات کی تھی۔ بس جہاں رہیں خوش رہیں۔ مجھے نفرت ہے معاشرے کے ایسے مردوں سے جو اپنی بہن بیٹیوں کو بہت عزت دیتے محفوظ رکھتے ہیں اور خود دوسروں کی بہن بیٹیوں پر گندی نظر رکھتے ہیں۔ اپنی بہنوں کو برقعہ پہنا کر اور دوسروں کی بہنوں کو انکے پردے میں بھی نہیں چھوڑتے۔
یہ اللہ کو بھول کیوں جاتے ہیں۔
جب لڑکی اللہ کے آگے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتی ہے۔ الله میں تب تک اچھی تھی جب تک میں نے شادی کا نہیں کہا تھا پھر لڑکی کو اللہ تعالیٰ کا فرمان جو کہ قرآن پاک میں ہے بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرک عورت کے )کسی پاکیزہ عورت سے( نکاح کرنا پسند نہیں کرتا اور بدکار عورت سے بھی سوائے بدکار مرد یا مشرک کے کوئی صالح شخص نکاح کرنا پسند نہیں کرتا اور یہ )فعلِ زنا( مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا ہےالنور 3 ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے مخصوص ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لئے ہیں اور اسی طرح پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے )مخصوص( ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں )سو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزگی و طہارت کو دیکھ کر خود سوچ لیتے کہ اللہ نے ان کے لئے زوجہ بھی کس قدر پاکیزہ و طیب بنائی ہوگی یہ پاکیزہ لوگ ان تہمتوں( سے کلیتًا بری ہیں جو یہ )بدزبان( لوگ کہہ رہے ہیں ان کے لئے )تو( بخشش اور عزت و بزرگی والی عطا )مقدر ہو چکی( ہے تم ان کی شان میں زبان درازی کر کے کیوں اپنا منہ کالا اور اپنی آخرت تباہ و برباد کرتے ہو النور 26ان آیات سے
لڑکے کو پہلے ذات غریب گھر والوں کا علم نہیں ہوتا جبکہ لڑکی کے جذبات کے ساتھ کھیلنا اس کے احساسات کا قتل کر دینا بہت غلط ہے الله سے دعا ہے کہ اگر کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ نکاح کر کہ اسکو اپنی عزت نہیں بنا سکتے تو اس کو اپنی تسکین کے لئے استعمال بھی مت کریں۔