محسنِ پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان ،، از قلم عزیز فاطمہ
یہ ١٦ دسمبر ١٩٧١ کی ایک سرد ، افسردہ اور شکست خوردہ شام تھی جب ڈھاکہ کے ریس کورس میدان میں بھارت کے جنرل جنگھیت سنگھ نے جنرل نیازی کے تمغے اور بیجز سرے عام نوچ ڈالے ذلت و رسوائی اور بیچارگی کا وہ عالم تھا کہ اس کے سامنے چیف اور جنرل اس کے سامنے بے بس تھا اور اس کا آہنی اصلحہ اور لوہا ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اور اس شام ہر آنکھ اشک بار تھی ہر کوئی وطنِ عزیز، وطنِ عزیز پکار رہا تھا۔ مقدس سر زمین دو لخت ہوا اور اس بے بسی ذلت اور رسوائی اور ہزیمت کا جھٹکا سب کو تڑپا گیا اور ہر آنکھ اشک بار ہوئی۔ اسی شام ١٦ دسمبر ١٩٧١ کو فتح کے نشےمیں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نےخطاب کرتے ہوئے کہا” یہ جو ھمیں فتح ہوئی ہے وہ ہماری فوج کی فتح نہیں ہے ،وہ ہماری حکومت کی بھی فتح نہیں ہے ۔ یہ ہمارے نظریہ کی فتح ہے ہم نے پاکستانی مسلمانوں کے نظریے کو باطل نظریہ ثابت کردیا اور ان کے نظریے کو ہم نے ان کا نظریہ بحرِ ہند میں غرق کردیا۔۔۔۔۔۔“ یہ خبر جب جرمنی میں بیٹھے ہوئے اک محبِ وطن پاکستانی نوجوان نے سنی تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ، وہ اس ذلت اور رسوائی کو برداشت نہ کرسکا اس پر سکتہ طاری ہوگیا اور وہ زارو قطار رونے لگااور اس نے ایک فیصلہ کیا اور وطن واپس آگیا اور یہاں آکر اس نے اس علاقے کا انتخاب کیا جہاں دھول گرد اور گرم موسم تھا ۔ کیڑوں مکوڑوں سے بھری اس زمین پر اس نوجوان نے اپنے وطنِ عزیز پاکستان کے تحفظ کی قسم کھائی اور پھر دن رات محنت کرکے وہ وعدہ وفا کیا اور تحفظِ پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کیا۔ اور اس تمام سفر میں اس کو صرف دو چیزوں کا سہارا رہا ایک اللہ پر یقین اور دوسرا صبرو استحکام۔ اور ایک دن اس نوجوان کا ایک ایسا کارنامہ منظرِ عام پہ آیا کہ جس سے ساری دنیا حیران رہ گئی اور دشمنانِ وطن سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اس ملک اور اس کے نظریہ کو بظاہر بحیرہ ہند میں بہاآئے تھے وہ محوِ حیرت تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ ملک جسے بظاہر انہوں نے کمزور کیا تھا آج وہ دنیا کے نقشے پر ایک ایٹمی طاقت بن کر اپنی پوری شان سے کھڑا ہے اور اب وہ دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لیئے تیار بیٹھا ہے اور دشمن لومڑی کی طرح پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہا ہے۔ ٢٨ مئی ١٩٩٨ کی دوپہر چاغی کا پہاڑ ایٹمی دھماکوں سے لرز اٹھا اور پہاڑ پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل ہوکر بکھر گیا اور ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس طرح ملک عزیز پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا اور دنیا کا ساتواں ملک بنا جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہے اور کامیابی سے ایٹمی طاقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
اس ملک کی حفاظت کا بیڑا اٹھانے والے اور اس کو ایٹمی طاقت بنانے والے وہ باہمت ، بہادر اور بلند حوصلہ نوجوان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ آپ بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے پھر آپ وہاں سے پاکستان آگئے اور پھر آپ نے کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی کی ڈگری حاصل کی۔پھر آپ اعلی تعلیم کے لیئے بیرونِ ملک چلے گئے وہاں ہالینڈ اور جرمنی سے اعلی تعلیم حاصل کی۔ پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان میں انجیئنرنگ ریسرچ لیبارٹری قائم کی، بعد ازاں اس لیبارٹری کا نام تبدیل کرکے اے۔ کیو۔ خان رکھ دیا گیا ۔ ٢٨ مئی ١٩٩٨ کو عبدالقدیر خان نے وطنِ عزیز کو ایٹمی طاقت بنایا۔ اللہ اور اس کے محبوب کے بعد جس ہستی کا پاکستان پر احسان ہے اور جو ہستی صحیح معنوں میں قومی ہیرو کہلانے کے لائق ہے وہ ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ آپ نے ١٩٧١ میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے بعد اس وطن کی حفاظت کا بیڑا اٹھا یااور دن رات کی انتھک محنت کے بعد اور مشکلات کے بعد اس وعدے کو پورا کیا۔ اس سفر میں بہت مشکلات آئیں، بہت سے لوگوں نے مخالفت کی، کچھ نے آپ کا راستہ روکنا چاہا اور رکاوٹیں کھڑی کیئں اور تو اور مخالفین نے آپ کے خواب کو پورا ہونے سے پہلے ہی توڑنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ مگر آپ صبر اور ہمت سے کھڑے رہے، ڈٹے رہے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیئے سر توڑ کوشش کی اور آخر کار آپ کو آپ کی محنت کا پھل مل گیا اور آپ نے چاغی کے مقام پر کامیاب ایٹمی دھماکہ کر کے مخالفین اور دشمنوں کے منہ بند کردیے اور وطنِ عزیز کی حفاظت دائمی حفاظت کی یقین دہانی کرائی کہ جب تک یہ ملک ایٹمی طاقت ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں دشمن ملک اس کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا، اس پر کبھی آنچ نہیں آسکتی۔ اس محب وطن اور باوفا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سلام ان کی عظمت کو سلام۔ اللہّ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو غریقِ رحمت کرے اور ان کو اجرِ عظیم عطا کرے۔ اور اس ملکِ خدا داد کی اس وطن عزیز کی حفاظت کرے اس کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے، آباد رکھے۔ اور ہمیں اس وطن کی قدر کرنے کی توفیق دے۔
