حقوق نسواں کی تحریکوں میں مردوں کا کردار
تحریر :معظمہ تنویر
خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں سے کون واقف نہیں ۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ اکثر اوقات خونی رشتے بھی ان کا ساتھ نہیں دیتے ۔ خود غرضی اور مفاد پرستی نے جیسے سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے ۔ اس لیے عورتیں صدیوں سے خود ہی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ اور مرد حضرات ان کا ساتھ دینے سے پہلو تہی کرتے چلے آرہے ہیں ۔ بیٹیوں کی وراثت کا معاملہ ہو یا غیرت کے نام پر قتل کا مردوں کی جانب سے اس کے خلاف کم ہی صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے مرد کے ذہن میں ایک افسردہ اور روتی دھوتی عورت کا تصور ہی مثالی ہے۔ اس لیے خواتین پر ہونے والے تشدد پر یا،ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مردوں کا متحرک ہونا بہت کم دکھائی دیتا ہے ۔اس کے بر عکس اگر خواتین کو ان کے محاذ پر یوں تنہا نہ چھوڑا جاتا تو آج وہ اپنے شرعی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہوتیں ۔مردوں کی جانب سے خواتین کے مسائل کے حل کے لیے سست روی کا عملی مظاہرہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے کہ آخر کیوں وہ کھل کر انسانیت کے نام پر عورتوں کے مسائل کو جانتے ہوئے بھی مستعد ہو کر نسائی تحریکوں کا حصہ نہیں بنتے ہیں بل کہ اس معاشرے میں عورت کی جائز آزادی اور حقوق کی بات کرنے والی خواتین کو بسا اوقات مردوں کی شدید مخالفت کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ کیا واقعی ہمارے معاشرے کا مرد ایک پر اعتماد اور کامیاب عورت سے خائف ہے ؟ کیا وہ اپنے حقوق حاصل کرنے والی عورت کو اپنی حاکمیت کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے ؟ عورت کے حوالے سے معاشرے کی ترقی زیادہ اہم ہے یا اس کی محکومی؟
