دعا ہمسفر اور سفر حج
تحریر ساجدہ سحر فیصل آباد
سلامتی ہو آپ سب پر جن کی بصارت سے میری تحریر گزری گی ۔
ایک بات اکثر میں سنتی تھی تو عجیب سا لگتا تھا پتا وہ بات کونسی ہے جب لوگ نادان کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے در کا دروازہ کھٹکٹھاتے رہو کبھی نہ کبھی وہ دروازہ کھول دے گا مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ہمارے عظیم رب ذوالجلال کے در کا دروازہ تو کبھی بھی بند نہیں ہوتا وہ تو ہر امحہ ہر گھڑی ہر وقت دن ہو یا رات کا پچھلا پہر ہر کسی کے لیے کھلا ہے۔میرے اللہ پاک کے در کا دروازہ صرف نیک پرہیزگار نمازی حافظ ولی زاہد عابد ساجد متقی عالم کے لیے ہی نہیں بلکہ گنہگار بدکار بداعمال کے لیے بھی کھلا ہے کھلا رہٹا ہےکھلا رہے گا ابد سے ازل تک وہ بھی اس یقین کے ساتھ اللہ پاک سے دعا کیا کرتی تھی کہ
کعبے کا طواف ہو ہم سفر کا ساتھ ہو
قدم قدم خاص ہو ہاتھ میں ڈالے ہاتھ ہو
اے اللہ مجھے ایسا ہمسفر دینا کہ جس کے ساتھ اس کو حج پہ جانا نصیب ہو جس کے ساتھ وہ مدینہ کی گلیوں میں جہاں پیارے محمد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدم مبارک لگے ہیں جن گلی کوچوں بازاروں میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھرتے تھے جہاں صحابہ اکرام ہر ہر وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور میٹھی باتیں سنا کرتے تھے وہ بھی دعائیں کرتی تھی اللہ کا فضل ہو گیا حج کا موسم آتے ہی اسکا اپنے ہمسفر کے ساتھ حج کا بلاوا آگیا اور دن رات کی سچی تڑپ یقین کامل سے مانگی گئ دعائیں قبول ہو چکی ہیں وہ لمحہ وہ گھڑیاں اللہ تعالی نے اسے نصیب کر دیں ہیں اپنے محرم کے ساتھ وہ کعبہ کے سامنے پہنچتے اپنے پاک پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئی کہ اللہ تو بیشک دعا قبول کرتا ہے تو ہی سننے والا ہے تونے جیسے مجھ نکمی ادنی لاچار کی دعا سنی ہے ایسے ہی سب جائز دعائیں قبول فرما اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے کبھی خود کو اپنے محرم ہمسفر کو اور کبھی جھکی عاجز نگاہیں اٹھا کر کعبہ دیکھتی تھی اور بتا رہی تھی کہ لوگو اللہ کا۔ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا ہاں کبھی کبھی دعا جلد قبول نہیں ہوتی مگر دعا مانگتے رہنا چاہیۓ وہ بہت خوش تھی اور اپنے ہم سفر کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ جس کو وہ چاہتی تھی آج وہ اس کا محرم اس کا ہمسفر بن چکا تھا اور وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو رہی تھی وہ کبھی محبت میں آسمان کی طرف اور کبھی کعبہ کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے ہمسفر کے چہرے کی طرف دیکھتی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور زبان پر شکر کے ترانے تھے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے اپنا سر اپنے ہمسفر کے کندھے پر رکھ دیا اور آنکھیں موند لیں۔اور اب وہ اپنے رب کی رحمانیت کو محسوس کر رہی تھی سبحان اللہ
اللہ پاک ہم سب کی دعائیں اپنی پاک بارگاہ میں قبول فزمائے آمین
0