0

حرف دلگیر،، تحریر : غزالہ انجم

حرف دلگیر
سید سلیمان ندوی رح اپنے ایک خطبہ جس کا عنوان ہے اسوہءحسنہ ص میں فرماتے ہیں
“یہ دنیا اختلاف عمل کا نام ہے”
اللہ تبارک تعالی کی اسی حکمت نے اس دنیا کے نظام کو قائم رکھا ہوا ہے۔یہاں امیر غریب،طاقتور و کمزور،آقا و غلام،حکمران و رعایا،افسر و ماتحت،ہر حلقہء انسانی کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں ، فرائض اور حقوق ہیں اور ان میں توازن ہی ایک صحت مند معاشرے کاضامن ہے۔دونوں قسم کے طبقات ہی نظام معاشرہ کی بقا کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔کسی بھی ایک طبقہ کے بغیر معاشرے کی تکمیل نا ممکن ہے۔اگر فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ تقسیم انسانی آزمائش ہے جو رب تعالی کی طرف سے رکھی گئی تاکہ اس اشرف المخلوقات کی کو دی گئی عقل اور ایمان کاامتحان لیا جاسکے۔ہر آسانی میں شکر اور ہر مشکل میں صبر کا امتحان مقصود ہے۔بہر حال یہ ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے۔فی الحال تحریر ھذا میں ان دونوں گروہوں کی اہمیت و ضرورت کے ساتھ ساتھ معاشرتی جبر و ناانصافیوں کا تذکرہ مقصود ہے۔سوشلزم کے پیروکار طبقات کی اس تقسیم کو ناانصافی پر مبنی مانتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے اکثریتی رویے اس بات کو بہت حد تک درست بھی ثابت کرتے ہیں۔۔کیونکہ ہمارے ہاں اوپر والے طبقے کی اکثریت نے خود کو حاکم اور نچلے طبقات کو محض محکوم سمجھا ہوا ہے۔تمام حقوق کا حامل صرف اوپر والا طبقہ ہےاور مثلا طبقہ محض فرائض کی چکی میں پاتا دکھائی دیتا ہے۔ظلم جبر اور ناانصافی کی داستانوں جا بجا بکھری نظر آتی ہیں۔بے شمار کرداروں پر مبنی یہ نچلا طبقہ زندگی کی اسٹیج پر ہر لمحہ طاقت وروں سے مار کھاتا ہی نظر آتا ہے۔
ان کرداروں میں ایک ہمارے گھروں میں کام کرنے والی ماسی ہے۔یہ ایک ایسا کردار ہے جو ہر متوسط اور امیر گھرانے کی بنیادی ضرورت ہے۔خواتین کی ذاتی مصروفیات۔گھریلو کام کاج کی جانب عدم توجہی یا یہ کام نہ کرنے کی عادت اور دیگر کچھ وجوہات کے ساتھ ساتھ گھر میں کام والی کا ہونا اک اسٹیٹس سمبل بھی ہے۔
یہ کام والی عموما ایک ان پڑھ مجبور اور بے کس عورت ہے جو زیادہ تر میاں کی بے روزگاری ، بیماری،غربت،اور بچوں کی کفایت کی خاطر گھر سے نکلتی ہے۔اور گھروں میں کام کر کے اپنا اور بچوں کا پیٹ پاتی ہے۔ان میں کچھ پیشہ ور ہیں اور کچھ مجبوری یہ پیشہ اختیار کرتی ہیں۔۔اور کسی غلط راہ پر چلنے کی بجائے محنت مزدوری کر کےحق حلال کی کھانا پسند کرتی ہے۔کسی بھی گھر میں مالکن اور کام والی کا ایک دوسرے سے گہرا ربط ہوتا ہے۔۔دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔۔۔کام والی محنت مزدوری کرتی ہے اور مالکن اس کے عوض پیشہ دیتی ہے۔۔۔بظاہر یہ معاملہ برابری کے اصول پر ہے۔۔۔مگر مالکن کا رویہ زیادہ تر حاکم کا اور کام والی کا انداز ایک محکوم کی طرح ہی ہوتا ہے۔۔۔۔مالکن کی جھڑکیاں ۔ڈانٹ ۔۔اور چھٹی کرنے پر نوکری سے ہٹا دینے کی دھمکیاں کام والی کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔
کبھی کبھی تو مار بھی برداشت کرتی ہے ۔۔
معاشرے میں ہر محنت کرنے والے کو ہفتے میں کم از کم ایک چھٹی میسر ہوتی ہے۔۔۔مگر کام والی کے لیے وہ ایک چھٹی بھی مختص نہیں ہے۔۔۔اور اگر وہ کر بھی لے تو بے شمار جھڑکیاں سننا مقصد ٹھہرتا ہے۔لاک ڈاون کے دنوں میں سب کو چھٹیاں ہوئیں مگر اکثر جگہوں پرکام والی کو ایک چھٹی نہ دی گئی۔۔۔اگر کسی نے کہیں دی بھی تو بغیر تنخواہ کے۔۔۔۔بیشتر مالکنوں کی خود ساختہ رائے یہ تھی کہ ان کا کام تو ہر وقت پانی میں ہاتھ ڈالے رکھنا ہے سو یہ کرونا سے آزاد ہیں۔۔۔وہ مالکنیں جو ملازمت پیشہ ہیں ان کا خیال تھا کہ زندگی میں پہلی بار تواس قدر آرام میسر آیا ہے اب اس موقع کو کام والی کی چھٹی کر کے گنوایا نہیں جا سکتا۔۔۔اپنی مجبوریوں کی خاطر یہ کام والیاں نہ صرف مالکنوں کا سخت رویہ برداشت کرتی ہیں۔۔بلکہ باقی گھر والوں اور بچوں کے غم و غصے کو بھی سہتی ہیں۔دوسروں کے بچوں کو بہلانے اور گھروں کو چمکانے والا یہ طبقہ اپنے بچوں کو روتا بلکتا اور اپنے گھروں کو مکھیوں سے بھنکتا چھوڑ کے صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔اور گھروں کو سنوارتا ہے۔یہ خواتین اپنی کام والیوں کی بدولت معاشرے کی اہم ذمہ داریاں بےفکری سے سرانجام دیتی ہیں اور بحیثیت ڈاکٹر انجینئر پروفیسر بنکر اور مختلف اہم شعبوں میں خود کو منواتی ہیں۔۔۔مگر یہ کام والی محض ایک غیر اہم کردار کے طور پر زندگی کی ڈگر پر بے نام و نشان چلتی رہتی ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں کو اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی پر صلہ ملے جبکہ حیثیت بھی برابری کی ہو کیونکہ دونوں جسمانی اور مالی طور پر ایک دوسرے کا حق ادا کرتی ہیں۔۔۔سو برابری کی بنیاد پر ربط رکھتی ہیں۔۔۔مگر افسوس ہمیں یہ برابری عموما کسی طور نظر نہیں آتی۔۔۔اسی طرح معاشرے کے مختلف پیشوں سے منسلک غریب اور کم حیثیت لوگ معاشرتی ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔جبکہ اللہ کی حکمت ان تمام کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح کرتی ہے۔۔۔۔اگر مزدور نہ ہو تو تعمیرات ناممکن۔۔۔کسان نہ ہو تو کھیتی باڑی ناممکن۔۔۔موچی نہ ہوتو جوتوں کی مرمت ناممکن۔۔۔کمہار نہ ہو تو برتن نہ بنیں۔۔۔جولایا نہ ہو تو کپڑا نہ بنے۔۔۔کان کنی کرنے والے مزدور اپنی اہمیت کے حامل ہیں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔دفتر کے باہر موجود آفس بوائے نہ ہو تو افسر کی گھنٹی پہ جی حضور کہہ کے اسے افسر کون ثابت کرے۔۔۔دروازے پہ کھڑا گارڈ نہ ہو تو کسی ادارے کا نظم و ضبط کیسے قائم رہے۔۔۔جھاڑو دینے والے نہ ہوں تو صفائی کیسے ہو۔۔۔کوڑا اٹھانے والے نہ ہوں تو گھروں گلیوں اور بازاروں میں کوڑے کے ڈھیر لگ جائیں۔۔۔گٹر صاف کرنے والے نہ ہوں تو سیوریج کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے۔۔۔غرض معاشرے کی بقا کے لیے تمام چھوٹی بڑی حیثیت کے حامل لوگ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے تئیں ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ناگزیر حیثیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے بغیر معاشرے کی عمارت مسمار ہو سکتی ہے۔۔۔لیکن اس قدر اہمیت و ضرورت کے باوجود ان کرداروں کی اکثریت پر ظلم و جبر ہمارے معاشرے کا ناسور ہے۔۔جس قدر نا انصافی اور غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی رویے کا شکار یہ لوگ ہیں یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔۔۔اس نا انصافی ظلم و جبر اور غیر انسانی سلوک کے خلاف اول تو آواز اٹھائی نہیں جاتی اور اگر اٹھائی بھی جائے تو دبا دی جاتی ہے۔۔۔مظلوم و بے کس طبقے کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔۔۔سو یہ لوگ اپنی مجبوریوں کی چکی میں پستے پستے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتے رہتے ہیں۔۔اسلام جو دین فطرت ہے ۔۔بہترین لائحہ عمل عطا کرتا ہے اور معاشرے کے تمام افراد کے حقوق و فرائض اور ان کی معاشرتی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔۔۔محنت دیانت انصاف اور مساوات اسلامی معاشرے کے وہ ستون ہیں جو جس دور میں بھی مضبوط ہوئے اسلامی معاشرہ ترقی کی رفعت پر پہنچا۔۔۔ضدقات۔۔۔خیرات۔۔۔زکوات۔۔۔۔صلہ رحمی۔یہ سب دراصل نظام معاشرہ کی تکمیل مضبوطی اور ترقی کے بنیادی ذریعے ہیں۔۔۔جن پر عمل کرنے سے ایک خوشگوار پرسکون اور پر امن معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے اور ہر طرف انصاف اور مساوات کا بول بالا ہوسکتا ہے۔۔۔مزید یہ کہ کسی بھی معاشرتی حیثیت میں خود کو برتر سمجھنا اور دوسروں کو کم تر سمجھنا ایک انتہائی غیر اخلاقی غیر دانشمندانہ اور نامناسب رویہ ہے جس کا کسی طور کوئی جواز نہیں بنتا۔۔۔۔سب کا خالق وہ ایک اللہ ہے اور وہی اس بات پہ قادر ہے کہ کس کو کس معاشرتی کردار میں کس مقام پر کس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے فائز کیا جائے۔۔ہر ایک اپنے تئیں بلند و برتر ہو سکتا ہے جو اپنی ذمہ داری کو بخوبی سر انجام دے۔اب وہ چاہے بادشاہ ہو یا غلام۔۔۔مزید یہ کہ برتری صرف اور صرف تقوی کو حاصل ہے۔۔۔اور حدیث نبوی کے مطابق ” بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہے”تحریر ھزا میں قلم فرسائی صرف اکثریتی رویے کی عکاس ہے وگرنہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بددیانتی اور بے ایمانی اس بظاہر نچلے طبقے میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہیں۔۔۔اور یہ طبقہ بھی اپنے فرائض کی بخوبی ادائیگی سے روگردانی کرتا نظر آتا ہے۔۔۔مثال کے طور پر کام والیوں نے عموما پانچ پانچ گھروں کے کام ذمے لیے ہوئے ہیں اور کہیں بھی حق ادا نہیں کرتیں۔۔۔چوری چکاری کی عادت بھی عام ہے۔۔اسی طرح دیگر نے بھی مختلف انداز میں۔بد دیانتی کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ معاشرے میں درد دل رکھنے افراد بھی یقینا پائے جاتے ہیں۔۔۔لاک ڈاون میں بیشتر مخیر اور حساس لوگوں نے نہ صرف اپنے ملازمین کو چھٹیاں دیں بلکہ تنخواہ بھی وقت پر اور مکمل دی۔۔۔
ایسے ہی لوگ جو خدا کی تقسیم پر شکر ادا کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور ادا کرتے ہیں معاشرے کی بقا کا باعث ہیں۔۔ایک مضبوط و مربوط معاشرے میں دونوں طائفہء انسانی اپنا اپنا اہم کردار ادا کر تے ہیں۔۔۔۔اور ایک دوسرے کی اہمیت اور ضرورت سے واقف ہوتے ہیں۔۔۔

وما علینا الاالبلاغ

غزالہ انجم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں