ماؤں کا عالمی دن از قلم : عزیز فاطمہ
تحریر: عزیز فاطمہ
ہر سال، سال میں ایک دن ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، وہ دن صرف ماں کا دن ہوتا ہے اس دن ماؤں کو عزت دی جاتی ہے اور اولاد اپنی ماؤں کو تحفے دیتی ہے اور سارا دن ان کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ دن بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن پہلے صرف غیر مسلم ممالک میں ہی منایا جاتا تھا کیونکہ وہاں کوئی خاندانی نظام نہیں۔ وہاں پر بچے جب بالغ ہونے لگتے ہیں تو تب ہی ان کو بتادیا جاتا ہے کہ ان کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے اور وہ بھی اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات بھی اٹھانےلگتے ہیں اور پھر اس طرح سے ان کے اور انکے ماں باپ کے بیچ ایک فاصلہ آجاتا ہے۔ جیسے گھونسلے سے گرنے والے پرندے کابچہ واپس نہیں آتا اسی طرح ان بچوں کی زندگی ہوتی ہے، اس طرح وہ خود مختار ہوجاتے ہیں۔وہ بظاہر تو ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں مگر ہر اک کی اپنی ذاتی زندگی ہوتی ہے، جس طرح انکے ماں باپ بچپن میں انکی ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اسی طرح پھر بچے بھی انکے بوڑھے ہونے پر انکی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور ان کو اولڈ ہاؤسز میں چھوڑ آتے ہیں جہاں پر ادارے کا عملہ انکی نگہداشت کرتا ہے۔ اور انہوں نے سال میں صرف ایک دن رکھا ہے جب وہ جاکر ان سے ملتے ہیں اور تحفے تحائف دیتے ہیں اورسارا دن ان کے ساتھ گزارتے ہیں اس دن کو کہتے ہیں۔ Mothers Day یہ ماؤں کا عالمی دن پہلے صرف غیر مسلم ممالک میں منایا جاتا تھا مگر اب یہ پاکستان میں بھی عام رواج ہوگیا ہے۔ اور اب یہاں پر بھی لوگ ماؤں کا عالم دن، باپ کا عالمی دن ہمارے اسلامی اور مہذب معاشرے میں بھی مناتے ہیں۔ جہاں اسکی نہ گنجائش ہے اور نہ ضرورت۔ کیونکہ ہمارے مہذب اور اسلامی معاشرے میں تو ہردن ہی ماں کا دن اور ہر دن ہی باپ کا دن ہوتا ہے۔ یہاں خاندانی نظام رائج ہے باپ گھر کا سربراہ اور بادشاہ ہوتا ہے اور ماں گھر کی ملکہ ہوتی ہے اور سارا گھر ماں باپ کے حکم اور مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ماں باپ کا رتبہ بہت بلند کیا ہے۔ دین میں ماں باپ کا مقام بہت بلند ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی تو باپ جنت کا دروازہ ہے۔ جس نے ان دونوں میں سے کسی کا بھی دل دکھایا یا ان کی نافرمانی کی تو وہ اپنی جنت اور عاقبت دونوں ہی گنوا دے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں ماں باپ کے گستاخ اور نافرمان کو، جس نے ماں یا باپ دونوں میں سے کسی کا بھی یا دونوں کا دل دکھایا ہو اسکو آخرت میں سخت سزا دی جائے گی اور اسکے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اسکو سزا دے دی جاتی ہے اور اسکی اپنی اولاد اسکے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو اس نے اپنے والدین کے ساتھ کیا ہو، اسکی اولاد اسکی نافرمان ہوجاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں اور باپ اپنی ساری ذندگی، اپنی جوانی، اپنا مال و دولت تک سب اپنی اولاد کو پالنے اور اس کو بڑا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ اور اپنی تمام زندگی بچوں کے اچھے مستقبل کے لئیے وقف کردیتے ہیں۔ اور ان کی ہر ضرورت اور آسائش کا خیال رکھتے ہیں یہاں تک کہ جھولے سے لیکر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے تک ماں اور باپ لمحہ لمحہ اپنی اولاد کی فکر میں گھلتے رہتے ہیں اور انکے اچھے مستقبل کی فکر ان کو ستانے لگتی ہے۔ مہذب معاشروں میں بچوں کی تربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے اور اسے سب سے ضروری امر سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلم معاشرے میں بھی بچوں کو ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ انکی تعلیم و تربیت کو اہم سمجھا جاتا ہے اور اس پر بہت زور دیا جاتاہے۔ سکول و مدرسے میں اساتذہ اور گھروں میں والدین بچوں بچوں کی اچھی اور دینی تربیت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اور بچوں کی تربیت دینی ماحول میں کی جاتی ہے ان کو اخلاقیات سیکھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ جن میں ماں باپ اور اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کا مقام و مرتبہ بتایا جاتا ہے۔ انھیں سکھایا جاتاہے کہ انھہیں ماں باپ سے کس طرح سے ادب سے پیش آنا ہے، ان کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہونا ہے اور ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کرنی۔ جب تک تمہارے ماں باپ نہ بیٹھیں تم بھی کھڑے رہو، بات کرتے وقت ان کے مرتبے کا خاص خیال رکھا جائے۔ کبھی بھی کوئی بھی ایسی بات نہ کرو جس سے تمہارے ماں یا باپ کی دل آزاری ہو، کبھی ان کی بے ادبی نہ کرو ان سے بتمیزی سے اور چلا کر بات نہ کرو بلکہ ان سے دھیمے لہجے میں بات کرو اور اگر وہ تم سے کسی معاملے میں سختی سے پیش آتے ہیں تو ان سے درگزر کرو جس طرح وہ تمہارے بچپن میں تمہاری خطاؤں پر تم سے درگزر کرتے تھے۔ اللہ اور اللہ کے نبی نے ماں اور باپ کا مقام بہت اونچا ہے۔ اللہ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے۔ نبی پاک اپنی ماں سے بہت محبت کرتے تھے ۔ ماں کی شان بیان کرتے نبی پاک کی والدہ ماجدہ کا ذکر مبارک آتا تو آپ بہت ادب و احترام اور محبت سے ان کا ذکر فرماتے۔ اور جب آپ کی رضائی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کی بارگاہ میں تشریف لاتیں تو آپ اٹھ کر کھڑے ہوجاتے اور اپنی چادرِ مبارک ان کے بیٹھنے کے لیئے بچھا دیتے۔ سبحان اللہ۔ اتنا بلند مقام ہے ماں کا کہ پیغمبرِ اعظم بھی خود اپنی ماں کا ادب و احترام بجا لاتے۔لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہم اپنی اقدار کھو چکے ہیں اور اپنے بزرگوں کے مقام و مرتبے کو بھلا چکے ہیں۔ ہمارے ہاں اب تربیت کا فقدان ہے، کل جو ذمہ داری ہمارے اساتذہ اور ماں باپ ادا کیئے کرتے تھے ان کی جگہ آج انٹڑنیٹ اور سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ آج بچوں کو جو تربیت آ رہی ہے وہ ماں باپ یا استاد کی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی آرہی ہے۔ آج ہم اور ہمارے بچے میڈیا سے سیکھ رہے ہیں، اسی لیئے آج ہم اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔ اور ہم اخلاقی پستی میں گرتے جارہے ہیں۔ اسی لیئے ہمارے اس مہذب معاشرے میں بھی اولڈ ہاؤسز کی تعداد بڑھنےلگی ہے۔ ہم میں برداشت کی کمی ہوگئی ہے۔ ہم میں لالچ اور خودغرضی نے جنم لے لیا ہے۔ اب ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے وہ بوڑھے والدین جنہوں نے اپنی ذندگیاں ہمارے مستقبل کو سنوارنے پہ لگادیں، ہم انہی ماں باپ کو بوجھ سمجنے لگتے ہیں اور پھر ہم ان پر خرچ کرتے وقت ان سے پائی پائی کا حساب مانگتے ہی۔ جبکہ خود ہم ان کے ایک رات کا بھی حق ادا نہیں کرپاتے ۔اور پھر ان کو رکھتے رکھتے ہم اتنا تھک جاتے ہیں کہ ہمارے گھر اور دل ان کے لیئے تنگ ہوجاتے ہیں اور وہاں انکے رہنے کی جگہ ختم ہوجاتی ہے، پھر یا تو ہم انھیں فالتو سامان کی طرح سٹور روم میں جگہ دیتے ہیں یا پھر ان کو ان کے کمرے تک ہی محدود کردیتے ہیں اور ذندگی کی خوشیوں سے ان کا ناطہ توڑ ڈالتے ہیں۔ اور اگر دل ذیادہ ہی بوجھل ہوجائے تو ان کو دل اور گھر سے نکال کر اولڈ ہاؤسز میں ہمیشہ کے لیئے چھوڑ آتے ہیں اور پلٹ کر دیکھتے بھی نہیں۔ اور سال بعد جب ایک دن ماں کا یا باپ کا آتا ہے تو ہم دنیا کو دکھانے کے لیئے صرف وہ ایک دن انکے ساتھ گزارتے ہیں۔ اور اب تو اور بھی آسان کردیا ہے سوشل میڈیا نے ماؤں کا دن منانا ہم بس فیس بک پر اور سوشل میڈیا پر اپنا استیٹس لگا کر یہ ذمہ داری بھی پوری کردیتے ہیں۔ یاد رکھیئے کہ ماؤں کا دن سال میں صرف ایک دن نہیں ہوتا بلکہ ہر دن ہی ماں کا دن اور ہر دن ہی باپ کا دن ہوتا ہے۔ والدین ایسی نعمت ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ماں اور باپ کی عظمت، قدر اس سے پوچھیئے جس کے والدین نہیں ہوتے کہ والدین کتنی بڑی نعمت ہیں۔یاد رکھیئے والدین کا صرف ایک دن نہیں ہوتا بلکہ پورا سال پوری زندگی ساری دنیا انکی ہوتی ہے۔ سال میں ایک دن تو صرف ان کا ہوتا ہے جو اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، اور وہ دن صرف سال بعد ہی آتا ہے۔
0