نظام تعلیم کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟
تحریر: صغرٰی یامین سحر لاہور
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات…
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سائنس نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے ہر شعبہ ہائے زندگی گزشتہ تیس سال سے زیادہ ترقی یافتہ ہوچکا ہے تعلیمی لحاظ سے بہت ساری سہولتیں میسر اچکی ہیں، جیسے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ موبائل اور دیگر ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے فاصلے سمٹنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی معلومات ان ذرائع سے حاصل کرنا عام انسان کے لیے بہت سہل ہوچکا ہے. مگر صد افسوس مسلم معاشرہ بہت زیادہ سہولیات ملنے کے باوجود بھی سائنسی ایجادات میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہے. دماغ میں اکثر و پیشتر یہ سوال گونجتا کہ مسلمان اس میدان میں کیوں پیچھے ہیں اور اب کوئی مسلم سائنس دان کیوں نہیں پیدا ہو رہا یہ مسلم قوم کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟
اس سے پہلے وہ کونسے عناصر تھے جن کی بدولت آج بھی یہ مسلم سائنسدان سب کے لیے ماڈل ہیں جیسے کہ : جابر بن حیان، موسیٰ بن شاکر، البتانی، ابن الہیثم، عمر خیام، المسعودی، ابو الوفاء، ابو محمد خوحبدی خالد بن یزید، زکریا، رازی، ابن سینا، الخوارزمی، ابو ریحان البیرونی، الفارابی، ابن مسکویہ، ابن رشد، کندی، اور الزہراوی جیسے عظیم سائنسدان کیوں پیدا نہیں ہورہے؟ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم تعلیمی میدان میں وہ کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے جو گزشتہ صدی میں مسلم سائنسدان نے سمیٹی تھی سائنسی ایجادات کی دنیا میں تہلکہ کا مچادیاتھا. ہمارے ملک پاکستان میں نطام تعلیم نہایت ناقص ہے اس کی سب بڑی اور ٹھوس وجہ تعلیمی نصاب میں جدید دور کے مطابق تبدیلیاں نہ ہونا.. جیسا کہ ڈاکٹروں کے مطابق بچوں کی عمرکے ابتدائی پانچ سال دماغی لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اس عرصے کے دوران بچے کا دماغ مکمل ہوجاتا ہے اور اس کے سیکھنے کی ابتداء اگر اس عمر سے کی جائے تو وہ ان بچوں کی بنسبت زیادہ اچھے انداز سے سیکھتا ہے جن کو ان کے والدین اڑھائی سال اور تین سال کی عمر میں سکول میں پداخل کروادیتے ہیں. اس عمر میں والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انہیں پیارومحبت سے ذہنی طور پر مضبوط بنائیں خود اعتمادی پیدا کریں ان کے دلچسپی کے امور میں ان کا ساتھ دیں ذہنی سرگرمیوں سے زیادہ جسمانی سرگرمیوں پر بھر پور توجہ دیں جسمانی لحاظ سے بچہ جنتا مضبوط ہوگا تو خود بخود وہ ذہنی لحاظ سے مضبوط ہوگا. ہمارے معاشرے میں بچوں کے ساتھ ناانصافی کی شروعات ان کے گھر سے شروع ہوجاتی ہے، ناانصافیوں کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے. بلکہ ایسا ہونا چاہیے تھا کہ پانچویں کلاس پاس کرنے تک بچوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق ماحول دیا جاتا اور ان کی عملی مشقیں شروع کروادی جاتیں مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی بچے کے زندگی کے ابتدائی سولہ سال نہایت اہم ہوتے ہیں ہم انہیں ضائع کردیتے ہیں سب کو یکساں نصاب جبراپڑھایا جاتا ہے اور عملی زندگی سے اسے کوسوں دور کردیاجاتا ہے وہ کتابی کیڑا ڈگری ہولڈر تو بن جاتا مگر وہ عملی میدان میں اکثر ناکام ہوجاتا ہے. والدین کی کثیر تعداد اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتی ہے کہ پڑھ لکھ کر ملازمت کرے گا ذہنی طور پر اسے غلامی والی زندگی گزارنے کے لیےتیار کیا جاتا ہے یہ نہیں بتایا جاتا کہ تعلیم انسان کو صحیح معنوں میں انسان اور دوسروں سے منفرد بناتی ہے. مگر ہم بچوں کے ذہنوں میں بات ڈال دیتے ہیں کہ تونے پیسے بنانے والی مشین بننا ہے ناکہ اچھا انسان…ہمارے ادارے بچوں کو تعلیم کی جگہ معلومات دے رہے ہیں علم وہ ہوتا جو عملی طور پر ظاہر ہو. کیوں کہ آج کل بچوں میں بے ادبی کا فقدان ہے بعض بچے استادوں کے ساتھ دست گریبان ہوجاتے ہیں.. اگر ان تجاویز پر عمل کر لیا جائے تو امید ہے ہم بھی سائنسدان اچھے کاروباری حضرات اور ایسے ڈاکٹر انجینئر پیداکرنے میں کامیاب ہوجائیں جو اپنے اپنے شعبوں میں نت نئی ایجادات سے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں..
1)پانچویں کلاس کے بعد بچے کی دلچسپی کے مطابق مضامین پڑھائے جائیں. استاد کو چاہیے کہ بچے کی دلچسپی کو مد نظر رکھیں اور اس کی حرکات وسکنات پہ بھر پور غور فکر کیاجائے یہ بات آسانی سے معلوم ہوجائے گی کہ بچہ کس شعبہ میں جانا چاہتا ہے ڈاکٹر بنا چاہتا یا انجینئر یا بزنس مین جس شعبہ میں وہ زیادہ دلچسپی ظاہر کررہا بس اسی شعبہ سے متعلق محنت کی جائے اس کے بعد وہ ایک قابل ڈاکٹر یاانجئنیر یا بزنس مین بنے گا کیوں کہ بچپن سے لیکر عملی زندگی میں قدم رکھنے تک وہ ماہر ہوجائے گا اپنے فن میں…
2) تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل لیب کا انتظام بھی کیاجائے روزانہ کی بنیاد پر انہیں عملی طور پر کوئی نا کوئی ٹاگٹ دیا جائے.
3) بچوں کے سکول بیگ سکول میں رکھیں جائیں تاکہ وہ پرسکون دماغ کے ساتھ گھروں کوجائیں کام کا بوجھ لے کر جب وہ گھروں کو جائیں گے توان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجائے گی. بچوں کو ہوم ورک کے لیےعملی کام دیاجائے ہر بچہ کے لیے یہ لازم ہو کہ وہ اپنے شعبہ سے متعلق لوگوں کے ساتھ وقت گزارے اور ان کی مدد کرے تاکہ وہ روزانہ کی بنیاد پہ کچھ نا کچھ سیکھ سکے لوگوں کے ساتھ میل جول سے اس میں خود اعتمادی پیدا ہو. اگر بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا تو اس کے والدین کو چاہیے اسے دو گھنٹے کا وقت ڈاکٹر کے ساتھ گزارنے کو دیا جائے…. اسی طرح دوسرے شعبوں کے بچوں کو بھی ان کے دلچسپی والے افراد کے ساتھ جوڑا جائے.
4)بچوں کو منتشر خیالی سے بچائیں جب انہیں وہ ماحول ملے گا جس میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ اپنی تمام تر توجہ صرف اسی طرف لگائیں گے.. ایک سادہ سی بات ہے تصوف میں بزرگانِ دین جب ان سے کوئی بھی شخص باطنی اصلاح کے حوالے سے جڑنا چاہتا ہے تو وہ انہیں اللہ کے نام کی طرف متوجہ ہونے کی تلقین کرتے ہیں مراقبہ کے ذریعے یاپھر کائنات میں چل پھر کر غور فکر کی دعوت دی جاتی ہے.. انہیں یہ نہیں کہا جاتا کہ تم پہلے گرائمر پڑھو پھر تمہاری باطنی اصلاح ہوگی. مثال کے طور پراگر کسی کو روٹی کی بھوک ہے اسے کہا جائے پانی پہ گزارا کر لو تو کیا اس سے اس کی جسمانی ضرورت پوری ہوجائے گی؟ اسی قسم کا جبرہمارے تعلیمی اداروں میں ہورہا ہے.
استادوں اور بچوں کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے بچے کھل کر اپنے مسائل استادوں کے سامنے بیان کر سکیں زیادہ سختی سے گریز کیاجائے پیارو محبت ادب احترام والا رویہ روا رکھا جائے یہ تو بالکل سادہ سی بات ہے جب ہم گیند کو دیوار پر مارتے ہیں پلٹ کر ہماری طرف آتی ہے. جب استاد بچوں کو عزت دیں گےتو بچے بھی اپنے استادوں کو عزت واحترام دیں گے ایسے ماحول میں بچہ زیادہ سیکھے گا اور ایک مذہب شہری بن کر سامنے آئے گا جو ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرےگا.
5) استادوں کو ایک خاص مضمون پڑھایا جائے جو بچوں کی نفسیات کے مطالق ہو تاکہ استاد ہر بچے کو اس کی نفسیات کے مطابق راہنمائی کر سکے ایک لاٹھی کے ہانکنے کے مترادف نہ ہوجائے.. جب استادوں کو بھرتی کیا جائے تو انہیں اخلاقی طور پر بھی پرکھا جائے یہ دیکھا جائے کہ ان کے اندر صبروتحمل درگزر والی صفات بھی ہیں کہ نہیں. ایسے استادوں کو بھرتی نہ کیا جائے جو شدت پسند ہوں،ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں شدت پسند سے مراد ہے جس میں اعتدال نہ ہو جو اپنی من مانی کرنے والا ہو جو صرف ایک پہلو کو مدنظر رکھے دیگر اہم پہلووں کو نظر انداز کرتا رہے… ایسی صفات کے حامل افراد کو ترجیح دی جائے جو معتدل مزاج کے مالک ہوں.
6)ایک مضمون ایسا بھی پڑھایا جائے جس میں مسلمان سائنسدان کے بارے میں مکمل تعارف اور آج کل انہیں کس نام سے پکارا جا تا ہےاور انہوں نے کیسے کامیابیاں حاصل کی تھی تمام تر معلومات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جائے ان کا قرآن وسنت کے ساتھ کیا سا تعلق تھا تاکہ ہمارے بچوں کو بھی شوق پیدا ہو زندگی میں آگے پڑھنے کا.
7)قرآن وسنت کے ساتھ جوڑا جائے ایسی آیات پر متوجہ کیا جائے جن میں غور فکر کرنے کی اللہ پاک نے دعوت دی ہے.. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور صحابہ کرام کی زندگیوں اور ان کے عملی کاموں کے بارے کامل طور پر معلومات فراہم کی جائیں.. صحابہ کرام کے دور میں کونسے کونسے شعبوں نے ترقی اور وہ کونسے نظام اس دور میں متعارف ہوئے کاروباری لحاظ سے ان کا طرزعمل کیا تھا اور وہ کیا اصطلاحات تھی جنہیں استعمال کرکے انہوں کامیابیوں کے جھنڈے گارڈے، جن کے نظم وضبط سیاست، اخلاق و اعمال ڈونگرے پوری دنیا میں برس رہے ہیں اور رہتی دنیا تک ان کا نام روشن رہے گا..
8)استاد عملی طور پر ان چیزوں کو آپنائیں جو ایک انسان کو کامل انسان بناتی ہیں، ان کے فعل اورقول میں تضاد نہ ہو. جب بات چیت کرے جھوٹ نہ بولے وعدہ کرے تو وعدہ خلافی نہ کرے کیوں کہ بچوں کے لیے استاد رول ماڈل ہوتے ہیں والدین سے زیادہ بچے استادوں کی بات مانتے ہیں. اخلاق انسان کے وہ اعمال اور عادات ہوتے ہیں جو اسے بداخلاق لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں اور یہ عادات ان کی فطرت میں پختہ ہوں نہ کہ بناوٹی اور بلا تکلف ان سے صادر ہوتی ہوں . انسان کے اخلاق سے اس کے مزاج اور رویے کی عکاسی ہوتی ہے، اس کی تربیت کااندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس مزاج کا مالک ہے اور وہ کردار کے لحاظ سے کن حرکات و سکنات کا جامہ ہے-
فردِ واحد کے اخلاق معاشرے میں مثبت اور منفی انقلاب بپا کرنے کی قوت رکھتے ہیں اوربہترین معاشرے کی تشکیل ہمیشہ بااخلاق افراد سے ہوتی ہے-دینِ اسلام نے جو اخلاق کا رول ماڈل آقا پاک (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کی صورت میں پیش کیا ہے اس میں ہمارے لیے بہترین اسوۂ حسنہ ہے-
9)ہر سکول میں ایک مسجد ہونی چاہیے تاکہ بچے کا تعلق اپنے مذہب اور اللہ پاک کے ساتھ قائم ہو اس طرح وہ اعتقادی طور پر مضبوط ہوگا بے راہ روی کے چانسزز کم ہوجائیں گے…
اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت اور عظمت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان جگہوں پر اللہ پاک کی بندگی کی جاتی ہے اور یہ اس کے ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت کا مقام ہے، جس جگہ اللہ تعالی کو یاد کیا جائے، بندگی کے سجدے ادا کئے جائیں اور اللہ تعالی کو پکارا جائے، اس جگہ سے بڑھ کر اور کون سی جگہ ہوسکتی ہے! جس طرح اللہ پاک نے انسانوں کا نصیب بنایا اسی طرح زمین کے ٹکڑوں کا بھی نصیب بنادیا ہر زمین کے ٹکڑے کا مقدر اللہ کا گھر بننا نہیں ہے، اللہ پاک زمین کے جس حصے کو چاہتا ہے اپنا گھر بنانے کیلئے چن لیتا ہے اور وہ زمین کا ٹکڑا عزت، شرف اور عظمت مقام ونرتبہ حاصل کر لیتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جس طرح تم آسمان کے ستاروں کو چمکتا ودمکتا دیکھتے ہو، آسمان والے زمین پر قائم مسجدوں کو اسی طرح روشن اور منور دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسجدو ں کی تعمیر کا کام انبیا علیہم السلام سے لیا، قرآن پاک میں خانہ کعبہ کے بارے میں یہ بات ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اس کی تعمیر فرمائی، اللہ پاک کا ارشاد مبارک ہے:وہ بھی کیا وقت تھاجب ابراہیم خانہ کعبہ کی بنیادیں اونچی کررہے تھے اور(ان کے ساتھ ان کے بیٹے)اسماعیل بھی اور وہ دونوں ان الفاظ میں اللہ سے دعا کررہے تھے:) اے ہمارے پالنے والے! ہم سے (اس خدمت کوقبول فرمالے، بے شک تو ساری فریادیں)سننے والا (اور فریاد کرنے والوں انسانوں کے حالات جاننے والا ہے۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے مسجد اقصی کی تعمیر ہوئی، اور کائنات کے سب سے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام کے ساتھ خود حضور اکرمؐ بھی شریک ہوئے، تعمیر کے وقت خود آپ بھی پتھر اٹھا کر لاتے تھے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ زحمت نہ فرمائیں، مسجد کی تعمیر کیلئے ہم کافی ہیں، اس پر حضور اکرم ؐنے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ جس طرح تم اجر کے محتاج ہو، میں بھی اللہ کے اجر کا محتاج ہوں۔
10) ایک پریڈ تمام دن میں ایسا ہو جس میں زندگی گزارنے کے آداب سکھائیں جائیں بچوں میں ایک دوسرے کی خدمت کا جذبہ اجاگر کیا جائے… یہ ایسی تجویزات ہیں اگر ان پر عمل ہوجائے تو یقنا پڑھائی سے متعلق کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں….
0