تاریخ سے ترویج تک
از صفا خالد
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی عربی ،ترکی اور فارسی زبان متعارف ہوئی تھی۔ چونکہ وہ رائج الوقت زبان سے ابھی آشنا نہیں تھے اس لیے وہ مختلف زبانوں کے ملے جلے الفاظ استعمال کر کے بات چیت کرتے۔ برصغیر کی مقامی زبان، ہندوستان کا علاقائی ماحول وہاں کی ریت رواج اور اسلامی عقائد نے ایک نئی زبان کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس زبان کو تاریخ کے پنوں میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے جیسے کہ ؛ ریختہ، ہندوی، اردوۓ معلیٰ وغیرہ
گیارہویں صدی میں دو قوموں کے باہمی اختلافات اور مختلف نظریات سے اردو زبان کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے اردو زبان کا تعلق ہند آریائی زبان سے بھی ملتا ہے۔ اس آریائ زبان 1500قم سے 500قبل مسیح تک کو سنسکرت اور کلاسیکل سنسکرت میں تقسیم کیا گیا۔ سنسکرت سے نکلنے والی زبانوں کو پراکرت کے ناموں سے جانا گیا۔ اس طرح یہ زبان مختلف ادوار سے گزر کر مختلف نظریات کی ترویج کرتی گئی۔ اور بلاآخر 1942میں قائد اعظم رحمت اللہ علیہ نے پاکستان کی قومی زبان *اردو* کی پیشنگوئی کردی تھی۔ 1947 کی عظیم الشان ہجرت کے بعد *اردو* کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔
قائداعظم کے ارشادات میں بالکل واضح تھا کہ اردو زبان ہی پاکستان کی تعلیمی، سیاسی، سرکاری، دفتری اور عدالتی زبان ہوگی۔ مگر جدید دور کے تقاضے بدلتے گئے اور حالات مزید تشویشناک تب ہوئۓ جب اردو الفاظ کا معنی اور مفہوم بیان کرنے کے لیے زبانِ غیر یعنی انگریزی کا سہارا لینا پڑا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے اردو سے انگریزی، دفتری و عدالتی اور قانونی کاغذات کا انگریزی میں ترجمہ ہونے لگا۔ جب کہ پاکستان کا آئین قومی اور سرکاری زبان اردو زبان کا ہامی ہے۔ مغربی تقلید اس قدر غالب آگئی کہ تہذیب اور اقدار کے ساتھ ساتھ ثقافت کو بھی زبان غیر میں لپیٹ دیا گیا۔ عدلیہ سے لے کر اعلی حکام تک نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کے یہ بات سچ ثابت کر دی کہ ہم نہ تو قائداعظم کے ارشادات کو سمجھ سکے نہ ہی پاکستان کی پہچان کو رقرار رکھ سکے یہاں تک کے اپنی قومی زبان کے اصول و قواعد بھی ملیامیٹ کر ڈالے۔ مگر امید کی کرن کبھی بھی باقی ہے کیوں کہ بہت سے تنظیم ساز گروہ اردو زبان کی دوبارہ بحالی کے لیے سرگرم نظر آتے ہیں۔ ان کی عملی کوششیں اور بروقت حکمت عملی ہمیں مزید نقصان سے بچا سکتی ہیں۔ مگر ضرورت اسی امر کی ہے کہ تمام قوم اس قافلے کی رکنیت اختیار کرے اور اپنی زبان کو زندہ وجاوید اور ہمیشہ تابندہ رکھنے کے لئے بھر پور جدوجہد کرے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا جیسی رعایا ہوگی حکمران بھی ویسے ہی ہوں گے۔ تو حاکم کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ ہر ذمہ داری ہر کام کی پابندی حکومت پر ہی عائد نہیں ہوتی کبھی کبھار عوام کی زرا سی کاوش بھی حکومتی فیصلوں کو تبدیل کر سکتی ہے۔ صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ حکومت نے کیا کیا؟ ضروری یہ بھی ہے کہ رعایا نے اپنے حصے کا کام کتنی محنت اور ایمانداری سے کیا۔ اپنی زبان کی ترویج کا سلسلہ ہم سب کو پہلے خود سے شروع کرنا چاہیے اپنے گھر اپنے کام کی جگہوں پر اردو زبان کو ترجیح دی جائے۔ اردو زبان کی بحالی سے نہ صرف ہماری پہچان برقرار رہے گی بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی مغربی تقلید سے آزاد ہو جائیں گے۔
ازقلم : صفا خالد
فیصل آباد
0