پردہ
از قلم ساجدہ سحر
فیصل آباد
مجھے تو نے کب بے حجاب دیکھا ہے
جب بھی دیکھا ہے تو نقاب دیکھا ہے
میں ہوں عورت مطلب میں ایک عزت ہو
ارے بے پردہ پر تو رب کا عتاب دیکھا ہے
اے عورت تو ہے افضل مقام پر فائز
ماں کے قدموں تلے تو جنت باب دیکھا ہے
جو کہیں آنکھ میں شرم دل کو صاف رکھ
سیدہ کے بال پر تو پلٹتا آفتاب دیکھا ہے
روح الامین نہ دیکھ سکے جن کو کبھی
پردہ سیدہ زہرا لاجواب دیکھا ہے
مجھ کو ہے فخر اپنائی ہے میں نے شرم و حیا
بے پردہ کا تو خانہ خراب دیکھا ہے
در زہرا کی سگ ہوں میں تو سحر
حیات سیدہ زہرا کا نصاب دیکھا ہے
وہ آزاد ہو رہی تھی جو اسے پسند نہیں تھا جانتے ہو کس چیز سے آزاد پردے سے حجاب کرنے سے۔وہ جب اسے دیکھتی کڑھتی تھی اندر ہی اندر مگر وہ بے بس تھی کچھ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اسے خود باحجاب رہنا پسند تھا اسے الله کے بتائے ہوے راستے پر چلنا قرآن کے احکام پے چلنا پسند تھا وہ خود جانتی تھی کہ پردہ عورت کی حیا ہے خوبصورتی ہے۔ پردہ کرناباحجاب رہنے سے عورت بری نظروں سے بھی بچ جاتی ہے اور برائی سے بھی۔ پردہ جو الله پاک اور اس کے محبوب نبی صل علیہ وآلہ وسلم کو بہت پسند ہے۔ مگر کاش کہ وہ بھی اس بات کو سمجھ سکتی مگر ہدایت دینا توصرف اور صرف اللہ پاک کے اختیار میں ہوتااور وہ اس کی دوست تھی جس کو وہ بہنوں سے بڑھ کر سمجھتی تھی مگر وہ بے بسی سے اسے دیکھا کرتی تھی وہ بھی ان پڑھ نہیں تھی اس کو بھی سب پتا تھا ۔۔ مگر شائد صرف پتا تھا عمل کرنا نہیں چاہتی تھی بس پھر اس نے بھی الله پاک پے چھوڑ دیا قرآن کی اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ الله جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے۔
0