عنوان:بندہِ مزدور
تحریر:ساحرہ صحرا٘
سخت گرمی میں بھی میں روزی کما سکتا ہوں
میں ہوں مزدور میں فولادی جگر رکھتا ہوں
یکم مئی انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جہد مسلسل کے استعارے کا دن ہے۔یہ دن واقعہ شکاگو 1886 میں جانبحق ہونے والے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔مزدوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔پاکستان میں بھی یہ دن نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ۔اس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور مختلف سماجی تنظیمیں ،جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کا انعقاد کرتے ہیں جن کا بنیادی مقصد مزدور طبقے کے حقوق کا تحفظ ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
مزدور محنت و مشقت سے روزی کماتا ہے ۔گو کے اس کا کام سخت اور اوقات کار بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ مسلسل جدو جہد کو اپنا شعار بنائے رکھتا ہے۔جس طرح ایک عبادت گزار کو اپنی جبین کے مہراب پہ ناز ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک مزدور کو اپنے ہاتھوں کے چھالوں پر ناز ہوتا ہے ۔ایک حدیث مبارکہ ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا اور اللہ کے نبی داؤد (ع) اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔”
(راوی البخاری مشکوٰۃ المصابیح 2759)۔
ایک اور مقام پہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ؛”محنت کش کا پسینہ خشک ھونے سے پہلے اس کی اجرت اسے دے دو۔”
زاہد کو فخر ہے اگر سجدے کے نشاں پر
مزدور کے چھالے بھی بڑے غور طلب ہیں
مزدور کسی ملک کی معیشت میں اکائی کا درجہ رکھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک کی تعمیر و ترقی میں مزدوروں کا بھی خون پسینہ شامل ہوتا ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انہیں ان کی محنت کا بہترین معاوضہ نہیں دیا جاتا۔کئی گھنٹوں کا مشقت طلب کام لینے کے بعد انہیں جو معاوضہ دیا جاتا ہے ان سے بمشکل ان کی گزراوقات ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ حلال روزی کمانے والے ،محنت کش ؛اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں۔ان کے ضمیر مطمئن ہوتے ہیں کہ وہ کسب حلال کے پابند ہیں۔
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دن کیے جانے والی تقاریر محض تقاریر نہ ہوں بلکہ ان تقاریر میں کیے جانے والے وعدوں کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے ۔ مزدور کے لیے مناسب اوقات کار مقرر کیے جائیں۔ان کی محنت کا بہترین معاوضہ مقرر کیا جائے۔ان محنت کشوں کو معاشی استحصال سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔مزدوروں کے مسائل کو عوامی سطح پر اجاگر کیا جائے اور ان مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جائیں۔
پیٹ بھر دیتا ہے حاکم مرا تقریروں سے
اس کی اس طفل تسلی پہ تو رنجور ہوں میں
میں خراج تحسین پیش کرتی ہوں مزدور طبقے کو جو اپنا خون پسینہ بہا کر ،سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر اپنے اہل وعیال کی دو وقت کی روٹی کے لیے کام کرتے ہیں۔انکا حکومت سے یہ مطالبہ ہرگز ہرگز نہیں کہ انہیں غیر ضروری آسائشیں یا مراعات دستیاب کی جائیں بلکہ وہ تو فقط اپنی محنت ومشقت کا صلہ چاہتے ہیں تا کہ وہ بھی اپنی زندگی بطریق احسن گزار سکیں۔2020 کی لیبر پالیسی کے مطابق ایک مزدور کی کم از کم اجرت سترہ ہزار مقرر کی گئی تھی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں کیا یہ سترہ ہزار ایک مزدور کے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔پنجاب گورنمنٹ نے حال ہی میں ان مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی کم از کم اجرت 35000 مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔گو کہ اس اعلان پر ابھی مکمل عملدرآمد نہیں ہوا لیکن پھر بھی مزدوروں کی اجرت 17000 سے بڑھا کر 25000 کر دی گئی ہے جو ایک احسن اقدام ہے۔لیکن اگر ہم مہنگائی کا اور 25000 کا موازنہ کریں تو مہنگائی جیت جاتی ہے۔
مزدور ہوں محنت کا صلہ مانگ رہا ہوں
حق دیجیے ،خیرات نہیں چاہیے مجھے
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جس کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے اس مزدور کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا اور اگر معلوم ہو بھی تو وہ اس دن چھٹی تک نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اپنے بیوی بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانی ہوتی ہے جبکہ ملک میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ کم از کم یکم مئی کو ملک بھر کے مزدوروں کو ایک دن کی چھٹی دی جائے تاکہ وہ بھی آرام کر سکیں اور اس دن کو صحیح معنوں میں خوشی کے ساتھ گزار سکیں، بغیر اس فکر کے کہ آج کی روزی انہیں کون دے گا۔حکومت کو چاہیے کہ اس ایک دن کی مزدوری ، مزدور کو اس کی محنت کے عوض ادا کرے۔
یوم مزدور ہے ،چھٹی ہے، میرا فاقہ ہے
پھر بھی یہ دن تو مناؤں گا کہ مزدور ہوں میں
0