0

جنگل روتے ہیں، تحریر صغرٰی یامین سحر


تبصرہ

جنگل روتے ہیں

صغرٰی یامین سحر

جب میں نے یہ ناول پڑھنا شروع کیا رفتہ رفتہ اس کے سحر میں ڈوبتی چلی گئی۔ اے حمید صاحب کا کمال تعبیرات سے مزئین یہ ناول جس میں انھوں نے معاشرتی خوبصورتی اور اس کی بد صورتی کی ایسے دل فریب انداز میں منظر کشی کی ہے، قاری اسے پڑھ کرحیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا ہے۔ انہوں نےالفاظ کا تال میل ایسے باکمال اندازسے کیا جیسے موتیوں کو مالا کی لڑی میں پرویا جاتا ہے۔ قاری پڑھتے پڑھتے ان کے ہنر کی جادوئی منظر کشی میں گم ہو جاتا ہے اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود پہاڑوں کے نیلے شفاف آسمان پر چمکیلے ستاروں کے فانوس کو دیکھ رہا ہواور کبھی دھند کی لطیف چادر اڑھے بلند چوٹیوں کا نظارہ کر رہا ہو۔ الوچے بٹنگ کی ٹہنیوں پر لگے ہوئے سپید پھولوں پر سے شبنم کے قطرے ٹپکتا دیکھ کر ان سے محظوظ ہو رہا ہو۔ اسی طرح ایک ادیب کے لیے اس سے زیادہ حوصلہ افزاء اور کیا بات ہو سکتی ہے وہ اپنی تحریر پڑھنے والے کو تعبیرات ، محاورات اور منظر کشی کی گرفت میں لےکر اسے مکمل پڑھنے پر مجبور کر دے،اگر دیکھا جا ئے تو یہ ایک مکمل ادبی شاہکار ہے۔اس میں ایک ایسی لڑکی کا کردار دکھایا گیا ہے جو بہت بھولی بھالی تھی اور وہ ایک اجنبی شخص کی جھوٹی محبت کے جال میں پھنس گئی اور اس کے پیار کے سحر میں کھوکر اپنا سب کچھ اس پہ وار دیا ،اس نے تمام حدود پار کر لی اس اجنبی کی محبت کی خاطر اپنے ماں اور باپ کی عزت کی پرواہ کیے بغیر اس کے فریب میں آکر اپنا مستقبل داوٴ پر لگا دیا اس ناجائز تعلق کے بعد ایک انہونی خبر اس کی منتظر تھی ۔جب اسے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ وحید کے بچے کی ماں بننے والی ہے. اس کا رات دن کا سکون تہس نہس ہوگیا رت جگوں نے اس کے نینوں پہ ڈیرے ڈال دیے تھے پھر اس نے وحید کو اس انہونی بات کی خبر دی تو اس نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ” وہ شہر جاکر اس کے لیے دوائی لائے گا تاکہ اس مصیبت سے جا ن چھوٙٹ جائے،”وہ اس بھولی بھالی گوالن جس کا نام ریشم تھا دوبارہ واپس آنے کا وعدہ کر کے شہر چلا گیا ریشم کے لیے ہر پل اذیت ناک ہوتا گیا. وہ کرب میں مبتلا تھی۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی اس کی کوئی خیر خبر نہ آئی تو یہ بے آب مچھلی کی مثل تڑپنے لگی. اس کا کوئی پر سان حال نہ تھا جب وحید واپس نہ آیا اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوتا ہوگیا. یہ ایک ایسا راز تھا جس کو یہ خود سے بھی چھپاتی تھی ۔ جب اس کی ہمت جواب دے گئی اسے ایک امید کی کرن نظر آئی کہ یہ ساری بات اپنی سہیلی کو بتا دے تاکہ وہ اسے اچھا مشورہ دے سکے۔ اس کی سہیلی تمام واقعہ سن کر ششدر رہ گئی اس نے کہا “ریشی تم یہ سب کیسے کر سکتی ہو میں نے منع بھی کیا تھا کہ اس پردیسی پر اعتبار مت کرنا “پھر وہ ریشم کو لیکر اس دفتر میں چلی گئی جہاں کا وحید نے اسے بتایا تھا کہ وہ فلاں فلاں دفتر کا مالک ہے جب ان دونوں نے دفتر میں جاکر وحید کے بارے میں دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ اس دفتر کا مالک نہیں بلکہ سیل مین تھا اور وہ لاہور چلا گیا ہے کسی کام سے اب واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ۔ریشم اس صورت حال سے بہت پریشان ہو گئی وہ اب بھی اس کی بے وفائی کو جان نہ سکی بلکہ اسے لگا وحید کسی مشکل میں پھنس گیا ہے ،اس کی سہیلی نے اسے بہت سمجھایا کہ اس نے تمھارے ساتھ دھوکہ کیا ہےمگر وہ یہ بات کسی طور بھی ماننے کو تیار نہیں تھی۔ اس نے اپنی سہیلی سے کہا وحید تو اس سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا وہ اس کو بھلا کیوں کردھوکہ دے سکتا ہے ۔پھر ریشم نے لاہور جانے کا ارادہ کر لیا تاکہ وحید کی خیر خبر لے سکے اس نے بغیر سوچے سمجھے گھر سے باہر قدم نکال لیے اور کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ لاہور پہنچ گئی اور اس دفتر میں پہنچ گئی جہاں وحید ملازم تھا وہاں سے اسے یہ اطلاع ملی کہ وحید تو کمپنی کے کام سے ڈھاکہ چلا گیا ہے. یہ خبر اس پر بجلی بن کر گری وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی، مگر وہ لوگوں کے ہوتے ہوئے ایسا نہ کر سکی. اس نے اپنا سارا دن سڑک پر بنی ہوئی گرین بیلٹ پر گزارا. پھر اس کے دل میں خیال آیا کیوں نا ریلوے اسٹیشن چلی جائے وہاں اسے ایک اجنبی عورت ملی جس نے ریشم کو اپنی باتوں میں لگا کر اپنا گرویدہ بنا لیا اور اپنے گھر پر رات گزارنے کی پیش کش کی، پہلے پہل تو ریشم نے منع کر دیا پھر جب اس عورت نے مزید اصرار کیا وہ اس کے ساتھ جانے پر رضا مندہوگئی ،اسے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ عورت فاحشہ ہے اور مردوں پر لڑکیوں کو پیش کر تی ہے ،پہلی ہی رات اس گھر میں اس پر قیامت ٹوٹ پڑی دو مردوں نےاس کے ساتھ زبردستی کی وہ بہت چیخی چلائی مگر کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا اس فاحشہ عورت کے پاس دلا سیٹھ آتا تھا جو بہت بڑا بدمعاش تھا اس نے ریشم پر بہت مظالم ڈھائے اور اس نےاس کے حمل کو بھی ضائع کروا دیا وہ اسے پیدا کرنا چاہتی تھی اور اس فاحشہ عورت کے پاس چند لڑکیاں تھی جن میں سے ایک نے ریشم کو سمجھایاریشم ؛”یہ بچہ اگر بڑا ہوکر تمہیں وحید کی طرح چھوڑ کر چلاگیا تو تمہیں اس بات کا زیادہ دکھ ہوگا “تو اس لڑکی کی بات اس کے دل کو لگی اس کے بعد ریشم کو اطمینان ہوگیا۔دو سال اس فاحشہ عورت کے پاس رہ کر وہ چھپ کر یہاں سے بھاگ گئی اور ان سے چھٹکارا پا کر کسی اور گروپ میں شامل ہوگی اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔وہ بھولی بھالی ریشم کو بھول چکی تھی اور ہر رات اس کے بستر پر ایک نیا مرد ہوتا تھا یہ سب وحید کی وجہ سے ہوا تھا ۔ہمیں اس ناول سے چند سبق حاصل ہوتے ہیں ۔بچیوں کو چھوٹی عمر میں اجنبی مردوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیےا س عمر میں اچھے برے کی پہچان نہیں ہوتی جتنا ممکن ہو سکے مردوں سے دور ہی رہنا چاہے ۔ محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ ہےا سے غلط رنگ مت دیں اگر کوئی اظہار محبت کرتا ہے تو اس سے کہیں کہ وہ نکاح کرے خالی محبت نہیں ۔۔۔
دوسرا ہر بچی کو اپنے والدین کی عزت کی فکر ہونی چاہیے گھر سے باہر ہرگز قدم نہ نکالے اس دنیا میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں نیک بھی اور درندہ صفت بھی جو عورتوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں جوبھی فیصلہ والدین ان کے حق میں کریں خوشی سے قبول کر لیں کیو ں کہ والدین سے زیادہ کوئی بھی اولاد کی حق میں مخلص نہیں ہو سکتا ۔
تیسری غلطی جو ریشم نے دوبارہ دہرائی اجنبیوں پر اعتبار اس نے وحید والے واقعے سے سبق حاصل نہ کیا ایک اور اجنبی عورت پہ اعتبار کر کے اپنی زندگی تباہ وبرباد کر لی سفر میں تو ہر گز کسی پہ اعتبار نہیں کرنا چاہےایک اور بات اگر والد ین اپنی بچیوں کا خیال رکھیں انہیں اہمیت اور وقت دیں تو یہ خرابیاں پیدا نہیں ہوں گی کیوں کہ بچیاں بہت حساس ہوتی ہیں انہیں صرف توجہ کی ضرورت ہوتی خدارا اپنے بچوں پر توجہ دیں تاکہ بچیاں محفوظ رہ سکیں اور والدین کی عزت بھی محفوظ رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں