
گراں قدر!
ازقلم: حفصہ بٹ عدن
ٹوبہ ٹیک سنگھ
_____________________
غریب لوگ تحفہ دینے کے قابل نہیں رہ گئے۔ غریبوں کے بچے اپنے ماں باپ سے تحفے کی توقع کرتے کرتے یقین کر لیتے ہیں، انہیں کبھی ان کے ماں باپ تحفہ نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے پیٹ کی آگ بجھانا ہی ان کے باپ کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے اور تحفہ خریدنے کے لیے بہہہہہت سارے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب آپ کے پاس ڈھیر سارے پیسے نہ ہوں، تب بھی آپ بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ ان کے دلوں کو “قدردان” بنا کر۔ ہر اس چھوٹی چیز کا قدردان جو کوئی محبت سے انہیں تھمائے۔ پھر وہ کوئی قلم ہو، کتاب ہو، ڈائری ہو، ایک گھڑی، رنگوں کی ڈبیا، قلم دان، ایک چوڑیوں کا سیٹ، مہندی یا پھر کسی پودے سے توڑا ہوا خوب صورت سا پھول ہی کیوں نہ ہو۔
ماضی میں آپ کو بہت مثالیں ملتی ہیں، ماں باپ یا بزرگ اپنی قیمتی استعمال شدہ چیزیں بھی بچوں کو تحفے میں دیا کرتے تھے اور بچے بخوشی انہیں سینے سے لگا لیتے۔
ہم نئی چمکتی دمکتی چیزوں کے سحر میں کھو سے گئے ہیں۔ ہر چیز آپ کو نئی چاہئیے۔ پرانی کتاب، پرانی گھڑی، استعمال شدہ جیکٹ، پرانا قلم، ڈائری آپ یہ سب نہیں لینا چاہتے اور نہ ہی کوئی اور آپ سے لینے کی توقع رکھتا ہے۔
وہ وقت بھلا تھا نا جب باپ اپنے بیٹے کو اپنا قلم تحفے میں دے کر کہتا تھا “اسے ہمیشہ خیر کے لیے استعمال کرنا”
جب اپنی کلائی سے گھڑی اتار کر اس کی کلائی میں پہنا کر کہتا تھا ” یہ گھڑی تمہیں وقت کی قدر کرنا سکھائے گی”
اور ایک ماں اپنی بیٹی کو اپنی اوڑھنی دے کر کہتی تھی ” یہ چادر نہیں ، عزت ہے جو اللہ نے تمہیں پہنائی ہے، اس کی حفاظت تمہارے ہاتھ میں ہے”
اپنے ہاتھ سے کڑھا ہوا سویٹر اسے تھما کر کہتی تھی ” اپنے جہیز کے لیے کاڑھا تھا، مگر تمہیں اپنی نشانی کے طور پر دے رہی ہوں” پھر اس سے متعلقہ قصے سناتی۔
کوئی مہنگا تحفہ افورڈ نہیں کرتا تو خود کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ اور وصول کنندہ اسے سب سے زیادہ کوستا ہے کہ یہ کیا سستی سی لوکل پراڈکٹ اٹھا کر منھ پر دے ماری۔
الحمد للہ وشکر للہ مجھے جب کوئی تحفہ دیتا ہے، میں اس کا کور تک سنبھال کر رکھتی ہوں۔ پھونک پھونک کر کھولتی ہوں کہ محبت سے کسی نے اپنا قیمتی وقت لگا کر اسے پیک کر کے دیا ہے۔ پھر وہ چھوٹی چیز ہو یا بڑی۔ مہنگی ہو یا سستی، مجھے ہر تحفے کی قدر ہوتی ہے۔ کیونکہ کوئی چاہ سے صرف آپ کے نام پر وہ شے لے کر آیا ہوتا ہے۔
یوں بے قدر نہ ہوں!
سوچیے، اگر اللہ قدردان نہ ہوتا کیا ہماری ناقص سی نیکیوں کو قبول کرتا؟
تحفہ تو محبت بڑھاتا ہے پھر یہ دل میں بال کیسے لانے لگا؟ دل یہ کیوں کہنے لگا کہ یہ شے سستی، ناقص یا لوکل سی دے دی گئی ہے؟
قدردانی کا فقدان ہو گیا ہے۔ مادیت پرستی ہمارے اندر رچتی سی جا رہی ہے۔ تحفہ دینے والے ہاتھوں کی محبت کو جانچنے والے دل نجانے کہاں جا سوئے؟
ہاں تحفہ دینے والے کو بھی وہی شے دینی چاہئیے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
________________پ
0