اس کائینات کا آغاز تقریباً چودہ ارب سال پہلے ہوا اور اگر انسان کی بات کی جائے تو وہ کائینات کی 99.9985 فیصد عمر گزر جانے کے بعد پیدا ہوا ۔ اور ہمارے پاس ٹیکنالوجی کب آئی ؟ صرف سو سال پہلے ؟ لیکن ہمارے سوال ۔۔۔ کہاں ہے خدا ؟ کہاں ہے روح ؟ کہاں ہے سات آسمان ؟ کونسی سات زمینیں ؟ برزخ کہاں ہے ؟ نظر کیوں نہیں آتا ؟ قیامت کیسے آئے گی ؟ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ کہاں ہیں انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات ؟ کہاں ہیں فرشتے ؟ ہم دوسری دنیا میں کیسے جا سکتے ہیں ؟اس تھریڈ کی شروعات میں چند سوالوں سے کرونگی جو صرف پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے سامنے کھڑے ہوئے ۔ تھریڈ کے دوسرے حصے میں ، میں ان جگہوں کے بارے میں لکھوں گی جہاں ان سوالوں کے جواب چھپے ہو سکتے ہیں ۔ اور تیسرے حصے میں ، میں لکھوں گی کہ کیا ہمارا دین ان کے بارے میں ہمیں کچھ بتاتا ہے ؟ سنہ 1961 میں ایک تجربہ ہوتا ہے جس کا نام double-slit experiment ہے ۔ اس تجربہ میں ایک ایسی رکاوٹ سے الیکٹرانز گزارے جاتے ہیں جس میں صرف دو سوراخ ہیں ۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پیچھے دیوار پر صرف دو ہی جگہ پر الیکٹرانز نمودار ہوتے ، لیکن وہ دو نہیں بلکہ دس مختلف جگہوں پر ایک ساتھ نمودار ہو رہے تھے اور وہ بھی ان دو سوراخوں ہی کی شیپ اور سائیز میں لیکن یہ تو ناممکن ہے مگر حیران کن طور پر یہ ہو رہا تھا ۔ جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں ، محسوس کرتے ہیں یہ سب مادہ یا matter کہلاتا ہے ، آپ سب نے پڑھا ہو گا ٹھوس ، مائع ، گیس اور ہم صدیوں سے مادے کی یہی تین حالتیں پڑھتے آئے ہیں ۔ انیسویں صدی میں مادے کی ایک چوتھی حالت دریافت ہوئی جسے plasma کہتے ہیں اور بیسویں صدی میں ایک نہایت پراسرار سی چیز دریافت ہوئی جسے antimatter کہا گیا ۔ یہ مادے کی بالکل متضاد ہے ، انفیکٹ اسے دریافت کرنا ، اور اس کا ثبوت پیدا کرنا انسان کے مہنگے ترین تجربات میں سے ایک ہے ، ان شاء اللہ تھریڈ میں آگے چل کر اس پر مزید بھی لکھوں گی لیکن فی الوقت کے لیے صرف اتنا کہوں گی ، کہ اس کا ثبوت ڈھونڈنا اس قدر مہنگا تجربہ تھا کہ اگر میں اس کی قیمت لکھوں تو آپ میری یقین نہیں کریں گے ، لہٰذا ذرا گوگل پر antimatter price for 1 gram لکھ کر سرچ کریں اور پھر میری تھریڈ پر واپس آئیں ۔ یہ مینشن کرنا اس لیے ضروری تھا ، کیوں کہ جب اس کائینات کی تخلیق ہوئی تو بالکل برابر برابر مقدار میں matter اور antimatter پیدا ہونا چاہیئے تھا لیکن ہماری کائینات کا تمام کا تمام antimatter غائب ہے ۔ بالکل غائب ہے ، وہ سارا کہاں گیا ؟ ہمارے پاکستان کے مغربی آسمان میں ستاروں کا ایک جھرمٹ نظر آتا ہے جسے bootes کہتے ہیں ۔ اس ہی کے پیچھے خلاء کے پراسرار ترین حصوں میں سے ایک حصہ ہے جسے bootes-void کہتے ہیں ۔ بلکل خالی حصہ ، نہ کوئی ستارہ ، نہ کوئی سیارہ ، نہ ہی کوئی کہکشاں ، کچھ بھی نہیں ۔ لیکن اس کا سائیز ؟ بس اتنا لکھوں گی کہ اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک روشنی 33 کروڑ سال میں پہنچتی ہے ۔ اِنفیکٹ یہ اتنا بڑا حصہ ہے کہ اسے supervoid کا نام دیا گیا ۔یہ تو دور کی بات ہے ، زمین کے قریب آتے ہیں ۔ ہمارے پڑوسی سیارے نیپچون سے آگے ساڑے سات کھرب میل کا حصہ اچانک خالی ہو جاتا ہے ، نہ کوئی شہاب ثاقب ، نہ کوئی ٹوٹا ہوا تارہ ، صرف خالی خلاء ۔ اور کچھ بھی نہیں اس علاقے کا نام kuiper cliff ہے ۔ بیس اکتوبر 2003 کو ہماری زمین سے ایک ارب سال دور ایک ایسا عظیم الشان سٹرکچر دریافت ہوتا ہے جیسے اربوں کہکشاؤں نے مل کر ایک بہت بڑی سی دیوار بنا رکھی ہو ، اس دیوار کا نام sloan-great-wall رکھا گیا اس کا سائیز یوں سمجھ لیں کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک روشنی 1.38 ارب سال میں پہنچے لیکن یہ ناممکن ہے ، خلاء میں کوئی چیز اتنی بڑی ہو ہی نہیں سکتی تھی لیکن ایسا ہوا وا ہے ، سلون گریٹ وال موجود ہے اور ہماری خلاء کا سب سے بڑا سٹرکچر ہے ۔ایسے ہی سنہ 2013 میں یورپ کے سپیس سیٹلائیٹ planck نے کائینات کا ایک ایسا حصہ ڈھونڈا جو باقی حصوں سے زیادہ ٹھنڈا تھا اور اس میں دس ہزار کہکشائیں غائیب تھیں ، اس کا سائیز ایسا کہ روشنی کو بھی اسے کراس کرنے میں 1.8 ارب سال لگیں ۔ اور یہ حصہ بالکل ایسا تھا جیسے کسی کپڑے کا کوئی پھٹا ہوا مِسنگ حصہ ہو ! اور یہ بات تھریڈ میں آگے چل کر بہت اہم ہو گی ۔اس کے علاوہ کئی سوال ایسے تھے جو بڑے حیران کن ہیں لیکن صرف تھریڈ کی طوالت کی وجہ سے میں انہیں شامل نہیں کر رہی اور اپنے تھریڈ کا دوسرا حصہ شروع کر رہی ہوں ۔ وہ جگہیں ، جہاں شائد ہمیں جواب مل جائیں ۔ اور اس مد میں ، میں تھریڈ کو مختصر رکھنے کے لیے صرف تین بڑی دریافتیں لکھوں گی ۔پہلی دریافت سنہ 1884 میں lord Kelvin نے کی تھی ۔ وہی دریافت 1932 میں john oort نے کی ، وہی دریافت 1933 میں fritz zwicky نے کی کہ بعض سیارے ایسے ہیں جن پر موجود وزن ان کے اپنے وزن سے 400 گنا زیادہ شو ہو رہا ہے لیکن وہ کس چیز کا وزن ہے ؟ وہ چیز بذات خود نظر نہیں آ رہی لہٰذا اس نظر نہ آنے والے وزن کو dark matter کا نام دیا گیا ۔دوسری دریافت ، سنہ 1998 میں ایک بہت بڑا ستارہ پھٹا جسے supernova کہتے ہیں ، لیکن اس نے ایک عجیب انکشاف کیا ۔ ستارے کی آگ کو جتنی تیزی سے خلاء میں پھیلنا چاہیئے تھا وہ اس سے کہیں زیادہ رفتار سے پھیل رہی تھی اور وہ واحد ثبوت تھا ایک ایسی قوت کا جو ہماری کائینات کو سب سے بڑے پیمانے پر افیکٹ کر رہی ہے ۔ یہ قوت ہماری کل کائینات کا 68 فیصد حصہ ہے ، وکی پیڈیا پر اس کی نیچر unknown لکھی ہے ، یہ دیکھنے میں کیسی ہے ؟ unknown ، یہ کن کن چیزوں کو افیکٹ کر رہی ہے ؟ unknown اور ہمیں صرف اتنا پتہ چل سکا کہ یہ موجود ہے البتہ اتنی بڑی قوت کا مقصد کیا ہے ؟ that’s unknown ڈارک میٹر اور ڈارک اینرجی ، یہ دونوں مل کر ہماری کائینات کا 85 فیصد حصہ بنتے ہیں یعنی سادہ الفاظ میں ، ہمارے ارد گرد 85 فیصد کیا چل رہا ہے ؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے ، اور آگے چل کر ان شاء اللہ آپ اس کا جواب پڑھیں گے ۔تیسری دریافت ، ایک میگزین ہے new scientist کے نام سے ، اس میں ایک بڑا عجیب تجربہ درج ہے ۔ 2006 میں peter graham نامی سائینسدان اور اس کی ٹیم قطب جنوبی یعنی اینٹارکٹیک میں خلاء سے آنے والے ہائی اینرجی پارٹیکلز پر تحقیق کر رہی تھی ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ANITA نامی ایک مشین سسٹم کا استعمال کیا ۔ اب ANITA نے کچھ پارٹیکلز دریافت تو کیے لیکن ہونے والی دریافت اتنی ناممکن سی تھی کہ اس پروجیکٹ کو مزید دس سال تک چلانا پڑا ۔ ہوا یوں تھا کہ ANITA نے neutrino نامی پارٹیکلز دریافت کیے جو قدرت کے بھوت کہلاتے ہیں ، انفیکٹ یہ اتنے elusive ہیں کہ صرف ان کی موجودگی ثابت کرنے میں 30 سال لگے تھے ۔ یہ کائینات میں موجود کسی بھی چیز سے رابطہ نہیں کرتے اور ہماری پوری کی پوری زمین سے ایسے نکل جاتے ہیں جیسے وہ وہاں ہے ہی نہیں ، ٹھیک اس وقت بھی ہمارے جسموں سے ساڑھے چھ کھرب نیوٹرینوز ہر سیکنڈ گزر رہے ہیں لیکن ہمارے جسم سے کوئی انٹرایکشن نہیں کر رہے ، اور شکر کریں کہ نہیں کر رہے ورنہ اسی وقت آپ کے خون کا ٹمپریچر 4000 ڈگری سینٹی گریڈ ہو جائے گا۔ یہ کہاں پیدا ہوتے ہیں ؟ صرف اور صرف ستاروں اور بگ بینگز جیسے واقعات میں ۔ لیکن جو نیوٹرینوز ANITA نے ڈیٹیکٹ کیے ، وہ ہماری اس زمین میں سے آ رہے تھے جو کہ ، ایک دفعہ پھر ۔۔۔ ناممکن ہے اور اس کا صرف ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے ۔ آپ نے قرآن میں سورۃ ص کی آیت 27 پڑھی ہے ؟ ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ، بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔اور کمال ہے کہ یہی رپورٹ اکتوبر 2018 میں سٹیفن ہاکنگ جیسے ایک بہت بڑے نام نے اپنی کتاب میں شائع کی ۔ خلاء میں چیزوں کا اچانک غائب ہونا ، الیکٹرانز کا دو کے بجائے دس جگہوں پر ایک ساتھ نمودار ہونا ، ڈارک اینرجی ، ڈارک میٹر اور زمین سے آنے والے یہ نیوٹرینوز ، ان سب کو ملا کر صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے ۔ کہ ہمارے علاوہ بھی کوئی عالم ، بالکل ہمارے ساتھ ساتھ ، ہماری آنکھوں سے اوجھل ہمارے متوازی متوازی چل رہا ہے ۔اور اس نظر نہ آنے والے عالم کو parallel universe کہا جاتا ہے ۔ یہ کانسیپٹ اتنا پرانا ہے ، کہ تقریباً تمام مذاہب اور فلسفوں میں اس کا کہیں نہ کہیں ذکر موجود ہے ، 2300 سال پہلے یونانی فلسفی chryssipus نے بھی لکھا کہ ہمارے متوازی متوزی کوئی نہ کوئی دنیا موجود ہے ۔ دسویں صدی کی norse مائیتھالوجی میں بھی مجھے ایک یا ایک سے زیادہ دنیاؤں کا ذکر ملا جس میں ایک علیحدہ دنیا aasgard کا ذکر ہے جس کا لفظی مطلب god enclosure ہے یعنی ایسی دنیا جو صرف خدا کے لیے مختص ہے ، اور جیسے ہماری جنت کا کانسیپٹ ہے ، ایسے ہی norse مائیتھالوجی میں بھی مجھے ان کی ایک جنت کا تذکرہ ملا جسے وہ valhalla کہتے ہیں اِنفیکٹ valhalla کے اوپر تو ہاف بلین یوروز کی لاگت سے پوری ایک ویڈیو گیم تیار کی گئی ہے ۔ نورس مائیتھالوجی کو میں نے کیوں ٹچ کیا ؟ اس کی وجہ میں آگے چل کر لکھوں گی ۔ ایسے ہی یونانی اور مایا مائیتھالوجی میں بھی مجھے دوسری دنیاؤں کے تذکرے ملے جنہیں اس تھریڈ میں لکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے ۔ البتہ دوسری دنیاؤں کا کانسیپٹ جتنی وضاحت کے ساتھ ہمارے اسلام میں ملتا ہے ، اس پر میں حیران ہوں ۔ بلکہ ہمارا تو رب ہی ’’رب العالمین‘‘ کہلاتا ہے ، ایک سے زیادہ عالمین کا رب ۔مزید پڑھنے سے پہلے ایک چیز سمجھ لیں ، کہ ہماری کائینات میں جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے ، جو کچھ ہماری مشینری دیکھ سکتی ہے ، جہاں تک ہماری نگاہ جاتی ہے یہ سب ہمارا hubble-volume کہلاتا ہے ، اسے ایک بہت بڑی گیند کی شکل میں تصور کر لیں ۔ اور ہم تو اپنے ہبل والیم ہی کا صرف 15 فیصد حصہ سٹڈی کر سکتے ہیں کیوں کہ ہم تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہیں ۔ ہماری کل پہنچ صرف آگے پیچھے ، اوپر نیچے ، دائیں بائیں حرکت تک محدود ہے اس کے علاوہ ہماری اس کائینات میں ایسی ایسی ڈائیمینشنز موجود ہیں جس میں ہونے والے واقعات اور اس میں پائی جانے والی مخلوق ہمارے ادراک سے باہر ہے ۔آپ کو وہ واقعہ یاد ہے جب ابوجہل کو خبر ملی کہ نبی کریم ﷺ مسجد حرام میں نماز ادا کر رہے ہیں تو وہ غصے میں بھرا کعبہ کی طرف چل دیا کہ (معاذ اللہ) آج میں انہیں نقصان پہنچاؤں گا ، البتہ جب نبی ﷺ کی طرف بڑھا تو لوگوں نے دیکھا کہ اچانک اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا بچاؤ کیا اور پیچھے کی طرف ہٹا ۔ بعد میں اس نے کہا تھا کہ میرے اور محمد (ﷺ) کے درمیان ایک بہت بڑی خندق ، عجیب ہولناک مخلوق اور بہت سارے پر حائل ہو گئے ۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کی بوٹیاں اچک لیتے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کونسی دنیا منکشف ہو گئی تھی کہ اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا اور وہ دور بھاگ کھڑا ہوا ۔ ہمارے متوازی دنیا میں کونسی مخلوقات اور واقعات جنم لے رہے ہیں ، کیا جنات اور شیاطین بھی ایک علیحدہ ڈائیمینشن میں موجود نہیں ؟ سورۃ اعراف کی آیت 27 میں بھی آپ نے پڑھا ہو گا کہ شیاطین اور اس کے گروہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ۔یقیناً کچھ دنیائیں تو ہمارے ارد گرد ہی مختلف ڈائیمینشنز میں موجود ہیں ، لیکن ہماری کائینات میں شاید چھ سے زیادہ ڈائیمینشنز نہ ہوں کیوں کہ یہاں پر فزیکس کے قوانین کافی حد تک predictable ہیں ۔ البتہ ہمارے ہبل والیم کے باہر ، کونسی ڈائیمینشنز اور فزیکس کے کونسے قوانین لاگو ہیں ؟سائینس کے ذریعے سے شاید ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور شاید اسی لیے سورۃ رحمٰن کی آیت 33 میں آیا ہے کہ اے جن و انس کے گروہو ! اگر تمہیں قدرت ہو کہ زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ ! اور تم نہیں نکل سکتے ، سوائے خصوصی اجازت کے ۔ لیکن مزے کی ایک بات بتاؤں ؟ دوسری دنیاؤں کی سب سے واضح اور حقیقی جھلک تمام ادیان کے مقابلے میں ہمیں اسلام میں ملتی ہے ۔ آپ کو یاد ہے سورۃ بقرۃ کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے مچھر کی ایک مثال بیان کی تھی ؟ اس پر جھٹلانے والوں نے بڑا مذاق اڑایا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ اتنی چھوٹی چیز کی مثال کیوں بیان فرما رہا ہے ؟ اور اگلی آیات میں اس کے جواب میں آیا کہ چھوٹی مثال سے اللہ تعالیٰ بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے ۔ آپ سائینس اور فلسفے کے ایک اصول accom’s razor سے واقف ہیں ؟ آسان الفاظ میں اس اصول کے مطابق جواب ہمیشہ چھوٹی چیزوں میں دھیان دینے پر ملتا ہے ۔ اور ایسے جب ہم نے مادے کی چھوٹی سی چھوٹی اکائی یعنی ایٹم اور الیکٹرانز پر دھیان دینا شروع کیا تو ہمیں ٹریسز ملنا شروع ہوئے کہ اس سکیل پر تو ہمارے لاز آف فزیکس کی دھجیاں اڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں ۔ یہاں تو اشارے ہی دوسری دنیاؤں اور کائینات کے حوالے سے مل رہے ہیں ۔ الیکٹرانز اپنے مدار میں گھومتے گھومتے اچانک غائب ہو جاتے ہیں ، اچانک سامنے آ جاتے ہیں ۔آپ کو یاد ہے میں نے بتایا تھا کہ بگ بینگ کے دوران جتنا بھی matter پیدا ہوا اس کے برابر antimatter پیدا ہوا ہو گا لیکن وہ سب کا سب کہاں گیا ؟ کوئی نہیں جانتا ۔ کم سے کم وہ اس کائینات میں نہیں ہے کیوں کہ اگر وہ ہماری ہی کائینات میں ہوتا تو ہمیں اب تک علم ہو جاتا کیوں کہ matter اور antimatter کے کانٹیکٹ میں آتے ہی ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اس سے انتہائی طاقتور گیما ریز خارج ہوتی ہیں ۔ لیکن اینٹی میٹر ایک حقیقت ہے اور 1995 میں پہلی دفعہ CERN لیبارٹری میں بنایا گیا لیکن اب مصیبت یہ کہ اسے رکھا کہاں جائے کیوں کہ اس نے کسی بھی عام میٹر کے ساتھ کانٹیکٹ میں آتے ہی دھماکہ کرنا تھا ۔ لہٰذا penning trap نامی ایک خاص ڈیوائیس بنائی گئی جو ہوا سے خالی تھی اور اس میں الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی قوت سے اینٹی ہائیڈروجن کو سترہ منٹ تک سرن نامی لیبارٹری میں preserve رکھا گیا ۔ عبداللہ ابی دنیا جو کہ آٹھویں صدی کے عراقی عالم تھے ان کا ایک قول ہے کہ مغرب کی طرف ایک زمین ہے ، اس کی سفیدی اس کا نور ہے وہاں اللہ کی ایک مخلوق ہے جس نے کبھی لمحہ بھر بھی اس کی نافرمانی نہیں کی ، لوگوں نے پوچھا کہ پھر شیطان ان سے کہاں ہے فرمایا کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا کیا گیا ہے کہ نہیں ، پوچھا کیا وہ بھی انسان ہیں ؟ فرمایا کہ انہیں آدم کی پیدائش کا بھی علم نہیں ۔ ہم اس روایت کی سچائی کے بارے میں تو بحث کر سکتے ہیں لیکن کیا یہ ناممکن ہے ؟ کیا سورۃ بنی اسرائیل میں نہیں ہے کہ ہم نے بنی آدم کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ؟
یاد رکھیئے کہ آیت میں لفظ ’’بہت سی‘‘ مخلوقات کا لفظ ہے ، ’’سب مخلوقات پر فضیلت‘‘ کا نہیں ۔
0