عنوان: الگ الگ مکان!
مصنفہ: امِ عبداللہ
ٹوبہ ٹیک سنگھ
________________
پھر سب کے الگ الگ مکاں ہو جاتے ہیں
بہن بھائی ایک دوسرے کے مہمان ہو جاتے ہیں
ایک وقت ہوتا ہے جب سات بہن بھائی دو والدین کی سرپرستی میں ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں رتے ہیں ۔ یک ہی پلیٹ میں کھا کر بڑے ہونے والے ایک دوسرے کے ساتھ دکھ شیئر کرتے ہوئے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تعلیمی کیریئر مکمل ہوتا ہے تو عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔ ہر ایک کی اگلی زندگی کی فکر والدین کو ستانے لگتی ہے۔ لڑکیاں ہیں تو داماد، لڑکے ہیں تو چاند سی بہؤوں کی تلاش ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ والدین اپنے ان فرائض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ وہی بہن بھائی ظاہری طور پر دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک بہن شادی ہو کر دوسرے شہر جاتی ہے تو دوسری تیسرے شہر۔
ایک گھر میں نو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ والدین علم رکھنے والے تھے۔ سب کو بہت پیار دیا، محبت سے رکھا، تعلیم دلوائی، پھر شادیاں کیں تو والد صاحب کہنے لگے۔
” جب گھر میں میرے نو پریاں تھیں، مجھے کوئی تکلیف نہ تھی۔ مجھے بڑی پیاری تھیں، مگر جب شادیاں ہوئیں، نو کہانیاں بنیں، تو پتا چلا بیٹیوں کے والدین کو اتنی بشارتیں کیوں ہیں کہ کسی کا کوئی غم، کسی کی کوئی پریشانی تو کسی کا کوئی مسئلہ۔
حدیث شریف میں آتا ہے ” جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اور اچھی تربیت کی تو وہ اور میں قیامت میں اس طرح ہوں گے ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیان اور شہادت والی انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا تھا۔
والدین اپنی ساری اولاد کے لیے بڑی محنت و مشقت کرتے ہیں۔ بلاتفریق اپنی محبت تقسیم کرتے ہیں۔ آخرکار ایک گھر میں پلنے والے، مشترکہ بستر پر سونے والے، ایک برتن میں کھانے والے، ایک دوسرے کے کپڑے شئیر کرنے والے بہن بھائی ایک دوسرے ے گھر تھوڑی تھوڑی دیر کو آتے ہیں۔ یعنی پھر
سب کے الگ الگ مکان ہو جاتے ہیں
بہن بھائی ایک دوسرے کے مہمان ہو جاتے ہیں
0