0

کچھ نہ کچھ ہو نے والا ہے۔ تحریر : ڈاکٹرعارفہ صبح خان


تجا ہلِ عا رفانہ
کچھ نہ کچھ ہو نے والا ہے۔ تحریر : ڈاکٹرعارفہ صبح خان
دن بدن صورتحال بہتر ہو نے کے بجائے بگڑتی جا رہی ہے۔ حا لات قا بو سے باہر ہیں اورتمام معا ملات بگڑے ہو ئے ہیں۔ کہیں سکون، طمانیت،ٹہراؤ نظر نہیں آ رہا۔ جب انسان کے اندر خواہشوں کا طلاطم بڑھ جائے، بڑھاپے میں بھی زر زن زمین میں بے انتہا کشش نظر آئے۔ قبر کے بجائے اقتدار دکھائی دے تو سمجھ لیں کہ اِس شخص کا انجا م جلد سامنے آنے والا ہے۔ ارمان، خواہش، تمنا یا طلب کا ایک وقت ہو تا ہے اور ایک حد ہو تی ہے لیکن یہاں تو ہر سیاستدان ھل من مزید کے ساتھ زندہ ہے۔ خوا ہشوں کا بھی وقت اورحد ہو تی ہے۔ جیسے ایک مشہور مثل ہے کہ بُڈھی گھوڑی لال لگام کے جب عورت کے بچے جوان ہو جائیں۔ اُسکی عمر ڈھل جائے اور وہ پچاس برس کی ہو جائے تب بھی ہر وقت لال نیلے پیلے گلابی کپڑے پہننے، زیورات اور میک اپ سے لدھی پھندی رہے۔ تو لوگ مذاق اُڑاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک محاورہ ہے کہ باسی کڑاہی میں اُبال آنا۔ یہ دونوں محاورے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں پر صادق آتے ہیں بلکہ یہ محاورہ تو بنا ہی ہمارے سیاستدانوں کے لیے کہ کوّا چلا ہنس کی چال تو اپنی چال ہی بھول گیا۔ ہمارے سیاستدان خدا جانے کس مٹی کے بنے ہو ئے ہیں کہ اُن میں خواہشوں کا وفور ہو تا ہے اور خواہشوں کی شدت کسی طرح دم نہیں تو ڑتی۔ خواہشوں کا یہ انبوہ اُن کی ذہنی جسمانی قلبی اور نفسیاتی شہوت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے کم از کم سو سیاستدان ایسے ہیں جو کھرب پتی اور ارب پتی ہیں جبکہ ایک ہزار ایسے ہیں جو ارب پتی ہیں یا اسکے قریب ہیں۔ مر ے سے مرا سیاستدان بھی کروڑوں پتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اقتدار، دولت، شہرت کی بھوک اپنی انتہاؤں پر ہے۔ موجودہ حکومت کو ایک سال ہو گیا ہے لیکن انکی کارکردگی صرف جو ڑ توڑ، سازشیں، منفی ہتھکنڈے، جھوٹ اور لوٹ مار ہے۔ شہباز شریف تو عمران خان سے بھی زیادہ خراب، نالائق اور نااہل وزیر اعظم ثابت ہو ئے ہیں۔ عمران خان کے جھوٹوں اور سبز باغوں کا طوفان ایک طرف مگر شہباز شریف نے تو مہنگائی اور ٹیکسوں کا آتش فشاں برپا کر دیا ہے۔ یہ نام نہاد لیڈر کبھی عوام میں جاکر اپنی اوقات معلوم کریں۔ لو گ جھولیاں بھر بھر کر کُو سنے، بد دعائیں دے رہے ہو تے ہیں۔ گا لیا ں دیتے ہیں اور آہوں سسکیوں کے ساتھ ان کی موت کے لیے بد دعائیں کرتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کسی مظلوم کی بد دعا سے ڈرنا چا ہیے جب آپ کسی کو نا حق ستاتے ہیں تو اُس کی بد دعا آپ کو برباد کر دیتی ہے۔ اِس وقت پورا پاکستان اس پورے رمضان میں بد دعائیں ہی دیتا رہا ہے۔ ہر دُکھی آدمی کے دل سے آہ نکلی ہے۔ ہر غریب نے فریاد کی ہے۔ بد قستمی کی بات ہے کہ صرف حکمران اور سیاستدان ہی اس میں ملوث نہیں ہیں۔ آج پاکستان کا ہر معتبر ادارہ ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کا آلہء کار بنا ہو ہے۔ ہماری عدلیہ کا جو حال ہے اُسکا تماشہ لگا ہو ا ہے۔ کیا کبھی ماضی میں اُن ہزاروں لاکھوں لوگوں کو انصاف کے لیے کبھی آدھی رات کو عدالتیں کُھلی ہیں، جن کے ساتھ بربریت، تشدد، ظلم اور جبر ہوا؟ لاکھوں کیس پینڈنگ پڑے ہو ئے ہیں لیکن روزانہ ڈرامے ہو تے ہیں کہ آج اسکی ضمانت ہے، آج فلاں کی ضمانت ہے۔ ثبوت ہو تے ہیں لیکن مجرم معزز ین بن کر دند ناتے پھرتے ہیں۔ آج عدالت کسی عام آدمی کو طلب کر ے اور وہ مجبوراً نہ آسکے تو اُس پر فرد جرم عا ئد کر دی جاتی ہے لیکن واضح طور پر یہ نام نہاد لیڈرز کبھی ٹا نگ کا بہانہ کر کے، کبھی قتل ہو جانے کا ڈرامہ کر کے تو کبھی پلیٹلیس گرنے کا بہانہ لگا کر عدا لتوں کی آنکھوں میں دُھول جھونکتے ہیں تو انھیں کو ئی سزا نہیں دی جاتی۔ اُنکے گناہ جرم سامنے آ جاتے ہیں لیکن انھیں سزا نہیں ملتی۔ سزا تو ناحق بھٹو کو ملی تھی اور تب سے ہی اس ملک میں لیڈر پیدا ہو نے بند ہو گئے۔ بھٹو کے بعد اگر کو ئی لیڈر پیدا ہو ا تو وہ بھی بھٹو کی لختِ جگر بے نظیر بھٹو تھیں۔ عدالتیں اپنے فرا ئض ادا کرنے سے قا صر نظر آ رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے معا ملا ت متنا زعہ ہیں اور چیف الیکشن کمشنر بھی اپنی وفا داریاں ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح دیگر ادا رے ہیں۔ کو ئی ن لیگ کے ساتھ ہے کو ئی پیپلز پارٹی کے ساتھ اور کو ئی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ آئین کے ساتھ کوئی بھی کھڑا نظر نہیں آ رہا۔ اتنا شور مچا رکھا تھا کی جی اسحاق ڈار آئیگا تو ڈالر 75روپے کا ہو جائے گا لیکن اب تو ڈالر300 کے لگ بھگ ہو گیا ہے۔ شور مچا رکھا تھا کہ اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف سے پُرا نے یا رانے ہیں۔ آئی ایم ایف اور اسحاق ڈار لنگوٹیے ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ آئی ایم ایف نے اسحاق ڈار کی ایک بھی نہیں سُنی بلکہ ملنے سے بھی انکار کر دیا۔ پانچ چھ ماہ سے اسحاق ڈار کہا نیاں سُنا رہا ہے کہ جی آئی ایم ایف سے آج معا ہدہ ہو جائے گا کل معا ہدہ ہو جا ئے گا مگر ڈیڑھ سو دن گزر گئے۔ آئی ایم ایف منہ چڑا کر چلا گیا۔ جو ٹیکس اور مہنگا ئی آئی ایم ایف کو را ضی کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ اُس سے حکومت نے کئی کھرب ڈالر کما لیے۔ غریب کے ہاتھ پاؤں ہی نہیں تو ڑ دئیے۔ کمر بھی تو ڑ ڈا لی اِس وقت پاکستانی عوام کی حالت نفسیاتی مریضوں کی سی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ہر پاکستانی کے ہاتھوں میں کشکول ہو گا اور یہ سارے بے شرم لیڈر با ہر بھاگ جائیں گے۔ ویسے تو مکافات ِ عمل شروع ہو چکا ہے۔ شہباز شریف کے ساتھ جو ہاتھ ہونے والا ہے۔ اُس سے عوام پر کی گئی تمام زیادتیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ پہلی کاروائی تو گھر سے شروع ہو چکی ہے۔ دوسری کاروائی آصف زرداری کی طرف سے ہو نے والی ہے۔ آصف زرداری با اصول آدمی ہیں۔ دوست کو دوست اور دشمن کو ہمیشہ دشمن سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایک سچی جمہوری پارٹی ہے۔ وہ کسی بھی غیر جمہوری قدم پر ن لیگ کا ساتھ نہیں دے گی۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو بین ا لسطور وا رننگ دے چکے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان نے اَت مچا رکھی ہے کہ نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا۔ وقت اور حالات نے ثا بت کر چکے ہیں کہ عمران خان ایک نالائق اور نااہل حکمران تھا جس نے عوام کو سبز باغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ آج وہ قمر باجوہ کو بُرا بھلا کہتا ہے اور پہلے تو تعریفیں کرتے نہیں تھکتا تھا۔ جب اُسے معلوم ہو گیا کہ نہ اُس میں لیڈر اور نہ ہی کامیاب حکمران بننے کی صلاحیت ہے۔۔۔پھر بھی الیکشن کے لیے بضد ہے۔ ملک دیوالیہ ہو گیا ہے اور اسکو الیکشن کی پڑی ہے۔ پاکستان کے سیاسی، معا شی اور معا شرتی حالات دگرگوں ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ کچھ ہو نے وا لا ہے اور سب کی بساط اُلٹنے وا لی ہے۔ خوا ہشوں کے جنا زے اٹھنے کو ہیں۔ لکھ رکھیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں