خیرات نہیں ہنر بانٹئے
تحریر: عظمت عظیم
کل میں روزمرہ کی سبزی خرید رہی تھی کہ دیکھنے میں صحت مند ہٹی کٹی عورت میرے پاس آکر کھڑی ہو گئی بڑے فقیرانہ تان نکال کے کہنے لگی ۔۔۔۔۔ باجی اللہ کے نام پہ کچھ دے دو۔۔۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھوکوں مر رہے ہیں میں نے اسے کہا تم ایسا کرو چلوں میرے ساتھ میں تمھیں اپنی دوست کے گھر کام پہ لگاؤں وہ جاب کرتی ہے اسے کام والی کی ضرورت ہے وہ تمھیں تنخواہ کھانا کپڑا سب دے گی میں بھی تمھاری مدد کروں گی لیکن تم اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کام کیا کرو اسے میری بات سمجھنے میں چند منٹ لگے فورا کہنے لگی اللہ کے نام پہ کچھ دینا ہے تو دو ہم سے نہیں لوگوں کے گھروں میں کام ہوتا ۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کے وہ مجھے حقارت سے دیکھتی ہوئی چلی گئی تھوڑی دیر بعد واپسی پر میں نے اسے کسی دکان کے تھڑے پر بیٹھے نان پکوڑے انجوائے کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔
عزیز قارئین!! زرا غور کیجئے ہم بحیثیت انسان کیسی قوم تیار کر رہے ہیں جنھیں مانگنا انتہائی آسان اور اپنا حق لگتا ہے شعور کی کمی سے ہم ذہنی معذوری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں حال ہی میں ڈاکٹر مبارک علی سجادہ نشین درگاہ حضرت عبدالسلام چشتی بڑا بھائی مسرور کی رہائش گاہ پر فری آئی کیمپ اور لنگر کا اہتمام ہوا عوام الناس کی بھگدڑ نے مجھے کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی ضرورت مند جو کچھ لیتا ہے وہ انتہائی اپنی عزت و آنا کو مار کر کسی کے سامنے دامن پھیلا کر آنکھیں جھکا کر شرمندگی سے لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر آسان طریقے سے لیتے لیتے وہ عادی بن جاتا ہے یوں لگتا ہے جیسے وہ بچارا اپنی عزت نفس کو ہمیشہ کے لئے سلا دیتا ہے۔ کسی کو ضرورت مند رہنے دینا بار بار اسی کی مدد کرتے رہنا کسی کو اپاہج کر دینے کے مترادف ہے وطن عزیز کو مزید پس ماندگی میں لانے کے لئے کبھی مفت آٹا کبھی بےنظیر انکم سپورٹ کبھی احساس پروگرام تو کبھی صحت کارڈ کا ڈرامہ رچا کر غربت و جہالت میں ڈوبی قوم کو پستیوں میں لے جایا جا رہا ہے شکرگڑھ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں مائیں بہنیں بوڑھے فری آٹے کے لیے ذلیل و خوار ہورہے ہیں , انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے عورتیں کئی کئی گھنٹے لائنوں میں لگنے کہ بعد خالی ہاتھ واپس آ کے کل کو پھر جانے کے لئے تیار ہوتیں ہیں ایک بزرگ لائن میں دھکم پیل اور رش کی وجہ سے دم توڑ گیا کسی کی جیب کٹ گئی کسی کی سونے کی بالیاں اتر گئی کہیں چھ بچیوں کا باپ آٹا لیتے ہوئے جاں کی بازی ہار گیا۔۔۔ البتہ غریب اور غریب کی عزت اور سب سے بڑھ کر آنا رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے غریب ذلیل بھی ہو رہا ہے اور ڈھیٹ بھی ہو رہا ہے جس کسی کو کچھ مفت میں مل جائے اسے کیا ضرورت ہے محنت کر کے اپنی جان مارنے کی
خدارا۔۔۔۔۔۔ کوئی امداد ہو یا آٹا لائن بنا کر نہیں ہر دوکان پر سستا کریں صحت کارڈ کے نام پہ پرائیویٹ ہسپتالوں والے لوٹ مار کر بازار سجائے بیٹھے ہیں فری ایجوکیشن کے نام پہ اصل حق دار بہت پیچھے رہ جاتا ہے گورنمنٹ سکولوں میں جو کتابیں یونیفارم بچوں کے لئے آتے ہیں وہ ان تک بہت کم پہنچ پاتے ہیں انتظامیہ اپنے تعلقات اور اقربا پروری میں ہی لگے رہتے ہیں آٹا مفت نہ کریں سستا کر دیں چند ہزار یا چند لاکھ کو فری آٹا دیا جائے گا اور باقی عوام عزت کا جنازہ کندھوں پہ اٹھائے واپس آجاتے ہیں یہ قابل شرم بات ہے اس کا جواب حکمرانوں کو دینا پڑے گا اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ بھی مفت کے نام پہ دوڑے ہوئے ہیں عام آدمی کی بھی آٹے کی دوڑ میں یا کوئی مدد لیتے ہوئے سلفیاں بنواتے ہوئے عزت نفس مجروح ہو رہی ہے اور فری مدد کا ہر کوئی عادی ہوتا جارہا ہے خدارا انسانیت کی خود کو تار تار نہ کریں خیرات کے نام پہ قوم کو ہڈ حرام بناتے جا رہے ہیں اگر کچھ دینا چاہتے ہیں تومعاشرےکوراشن اور خیرات دینے کے بجائے اپنی عوام کے اندر شعور جگائیں انھیں ہنر مند بنائیں خواتین سارا دن خوار ہو کر آٹا لینے میں جب کامیاب ہو جاتی ہیں تو تو آٹے کے تھیلے کسی ہوٹل والے کو کسی دکان دار کو بھیچ کر پیسے جیب میں ڈال کر آرام سے گھر پہنچ جاتی ہیں رمضان میں تو اللہ کے نام پہ مانگنے والوں کی تو بہتات لگی ہوئی ہے ہر دروازے پر روز ایک درجن سے زائد بھکاری دستک دیتے ہیں۔ اکثریت ہٹی کٹی ہے۔۔۔تھوڑا اور اوپر دیکھئیے اپنے حکمران دوسرے ملکوں سے مانگنے کا ڈرامہ کرتے نظر آتے ہیں اپنی عیاشیاں کم نہیں ہوتی مانگنا آسان لگتا ہے یاد رکھیئے۔مانگنے والے کا کبھی پیٹ نہیں بھرا۔دراصل ہم اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھلائے بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے خیرات کی رقم ہاتھ میں تھمانے کی بجائے کلہاڑا ہاتھ میں دیا کہ جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور اپنی تقدیر خود بدلو جو مانگنے تانگنے کی افیون پر لگ گئے، وہ نسلوں سے مانگ رہے ہیں مگر آج بھی مفلس ہیں۔ مانگ کر کوئی کب یہاں غنی ہوا ہے؟ اگرتم اپنے شعبے میں کامیاب ہو تو معاشرے کو راشن اور خیرات دینے کے بجائے اپنے جیسے کم ازکم دس ہنر مند افراد دو ۔ ہنر کبھی بھوک اور تنگی نہیں آنے دیتا اس غفلت میں ڈوبی قوم کا ضمیر جگانے کی ضرورت ہے مفت خوری سے ان کی بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں گی احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ، لنگر خانوں، مفت آٹوں سے ہانک کر لوگوں کو کھیت، کھلیان، فیکٹری اور دستکاری کی طرف لایا جاۓ ورنہ دنیا میں ہمیں بھکاریوں کے نام سے یاد کرے گی الحمدللہ عظیم ٹرسٹ خاموش خدمت کا چھوٹا سا زریعہ جس میں ہم بھی حسب توفیق اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ایک بیوہ خاتون اور اس کی جواں بیٹی مجھ سے آسان امداد کی طلب کی غرض سے آئیں میں نے اسے کہا میں تمھیں اور تمھاری بیٹی کو سلائی مشین لے کے دیتی ہوں تم لوگ محلے میں دوسرے لوگوں کے کپڑے سلائی کرو مانگنے سے محنت کرنا ہزار گنا افضل ہے آج کل اتنی غربت ومہنگائی نہیں جتنا کہ لوگوں کی دیکھا دیکھی سب نے شور مچایا ہوا یے بس انسانوں کا محنت و مشقت سے جی چرانا اور غیر ضروری خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے مانگنا ہمیں آسان لگتا ہے ہم عزت نفس بیچ کر مانگنے کے ہی عادی ہوتے جارہے ہیں چینی کہاوت ہے کہ ” اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو “اس لئے خدارا خدارا خیرات مت بانٹئے۔۔۔۔۔ ہنر بانٹئے۔۔۔۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
0