
حواس کھو دیے گلیوں کے جال میں پھنس کر
ہم اپنے شہر میں اپنا مکان بھول گئے
اردو اور پنجابی کی معروف شاعرہ رفعت وحید صاحبہ کا یوم پیدائش
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی اردو اور پنجابی زبان کی معروف پاکستانی شاعرہ رفعت وحید صاحبہ 4 اپریل 1974 میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام رفعت سلطانہ ہے قلمی نام رفعت وحید اور تخلص رفعت ہے۔ ان کے والد صاحب کا نام عبدالغنی اور والدہ محترمہ کا نام سائرہ بی بی ہے۔ ان کی مادری زبان پنجابی ہے وہ اردو، انگریزی اور پشتو زبان بولنے پر بھی عبور رکھتی ہیں ۔ وہ پانچ بہن بھائی ہیں جن میں 3 بہنیں اور 2 بھائی ہیں رفعت صاحبہ سب سے بڑی ہیں ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علی ماڈل سے اور ایم اے اردو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا۔ رفعت سلطانہ کی شادی اپنے ماموں زاد ملک وحید سے ہوئی جس کی نسبت سے وہ رفعت وحید کہلانے لگیں۔ اولاد میں انہیں 4 بچے پیدا ہوئے جن میں 3 بیٹے ایک بیٹی شامل ہیں لیکن افسوس کہ ان کے 2 بڑے بیٹے فوت ہو گئے ۔ رفعت وحید نے ساتویں جماعت سےشاعری کی شروع کی ان کا پہلا مجموعہ کلام” سمندر استعارہ ہے” کے نام سے شائع ہوا۔ جب کہ ان کی دوسری کتاب پنجابی شاعری پر مبنی ہے جو ’’اکھراں پیڑاں بوئیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ ان کے دو شعری مجموعے زیر طباعت ہیں جن میں پنجابی شعری مجموعہ ’’سُولی ٹنگیا سورج‘‘ اور اردو مجموعہ کلام ’’میرے سامنے تو آ‘‘ شامل ہیں۔ ان کے پسندیدہ شعراءاور شاعرات میں ادا جعفری، پروین شاکر، فیض احمد فیض ،جون ایلیا اور مجید شامل ہیں ۔انھوں نے اپنے ادبی کام کی وجہ سے بہت جلد ایک منفرد مقام اور پذیرائی حاصل کی ہے۔اوراب تک کئی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں رفعت وحید کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو 2016 میں نیشنل بک فاؤنڈیشن ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے علاوہ اسی سال ہی ان کو اہل قلم ایوارڈ، کومسیٹ یونیورسٹی ایوارڈ، پیاس یونیورسٹی ایوارڈ، شریف کنجاہی ایوارڈ گجرات ملے۔ 2017 میں انھیں اہل قلم ایوارڈ سرگودھا، کمال فن ایوارڈ ملتان، اداجعفری ایوارڈ خوشاب ملے۔ 2018 میں پاکستان ادبی ایوارڈ ، خواجہ فرید سنگت اسلام آباد اور روہتاس ادبی ایوارڈ جہلم ملے۔ 2020 میں حسن کارکردگی ایوارڈ عشق صوفیانہ ان کے حصے میں آیا۔ 2021 میں شاعری پر 9 ایوارڈز حاصل کر کے انھوں نے ادبی منظرنامے پر ایک منفرد ریکارڈ بنایا ہے جس پر علمی ادبوں میں انھیں بےحد ستائش و تحسین حاصل ہوئی ہے۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
جگت پنجابی سبھا ، روزن ادبی فورم اور ورلڈ پنجابی فورم کی جانب سے “جگت پنجابی ایوارڈ‘‘ ملا جس کی تقریب چیمبر آف کامرس گجرات میں منعقد ہوئی۔ مہکاں پنجابی ادبی بورڈ، ساہیوال اور پنجابی چانن کی جانب سے “مہکاں ادبی ایوارڈ” حاصل کیا۔ یہ تقریب اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں ہوئی۔ پوٹھوہار آرٹ کونسل گوجر خان کی جانب سے “پوٹھوہار ادبی ایوارڈ” 2 مارچ 2021 کو گوجر خان میں منعقدہ تقریب میں حاصل ہوا اور ایک خوبصورت شال ، منجانب پیر عتیق چشتی اور چوہدری رفیق بھی اوڑھائی گئی۔ ادبی تنظیم دل دریا پاکستان کی جانب سے ’’پنجابی غزل ایوارڈ” 18 جولائی 2021 کو منجانب علی احمد گجراتی ، قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کی گئی تقریب میں دیا گیا۔ ہفت روزہ صفی نامہ چکوال کی جانب سے چکوال میں منعقدہ تقریب میں “گریٹ پوئٹ ایوارڈ” 2021-2022 منجانب صفی الدین صفی دیا گیا۔ ادبی تنظیم نظر انداز اہل قلم کی آواز نیاز مندان کراچی کی جانب سے “اداجعفری نسائی ادبی ایوارڈ” 23 دسمبر 2021 کو کراچی میں منجانب رونق حیات حاصل ہوا۔ انجمن مبصرین پاکستان و بلدیہ عظمیٰ کراچی، محکمہ کھیل وثقافت کی منعقدہ تقریب میں “سید ذاہد جعفری ایوارڈ” 24 دسمبر 2021 کو اور ایک خوبصورت اجرک ، منجانب راشد لطیف دیے گئے۔ ادبی تنظیم شمس ادب و آگہی حیدرآباد “شمس ادب ایوارڈ” 25 دسمبر 2021 کو اور ایک خوبصورت اجرک منجانب عبد المجید راجپوت بھی ان کے حصے میں آئے۔ اسی طرح علی ارشد میر پرسکار، علی ارشد میر ایوارڈ 31 دسمبر 2021 کو منجانب ڈاکٹر سرمد فرخ ارشد بھی ان کو حاصل ہوا ، بزم اہل قلم ایوارڈ 2022 منجانب بزم اہل قلم پاکستان ڈاکٹر فرحت عباس صاحب نے القائم لائبریری میں پیش کیا ، سند اعزاز منجانب گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج رحمت آباد راولپنڈی کی جانب سے نوازا گیا ، ایف جے ایوارڈ 2022 منجانب ایف جے رائٹرز فورم پاکستان 26 مارچ 2022 کو الحمرا ادبی بیٹھک لاہور میں پیش کیا گیا ۔
رفعت وحید نے اردو و پنجابی غزل اور نظم گوئی کے میدان میں مسلسل لکھا اور بہت جم کر لکھا ہے اور ان کا اپنا الگ اسلوب ہے۔ انھوں نے متنوع داخلی و خارجی موضوعات پر شاعری کی ہے اور جمالیاتی موضوعات کے ساتھ ساتھ بہت سے سماجی و معاشرتی مسائل اور خواتین کے ساتھ کی جانے والے مظالم اور ان کے استحصال کو موضوع بنایا ہے۔
رفعت وحید کی شاعری سے انتخاب
آدم سے مرا عشق مرا جرم تھا لیکن
رفعت میں گنہگار ہوں شرمندہ نہیں ہوں
خاک اندر جد خاک اتاری جاوے گی
بندیا تیری آکڑ ماری جاوے گی
واں واں دے کچھ نقش بنا کے آئی آں
میں رنگانوں کھلے لاکے آئی آں
چڑھا جب دن تو عریانی مری دیکھی زمانے نے
تری بھیجی ہوئی کالی گھٹا تاخیر سے پہنچی
بدن کی آگ نے برباد کر دیں بستیاں رفعت
ہمارے پاس رحمت کی گھٹا تاخیر سے پہنچی
حواس کھو دیے گلیوں کی جال میں پھنس کر
ہم اپنے شہر میں اپنا مکان بھول گئے