رنگ قدرت کا نظارہ
از قلم ساجدہ سحر
فیصل آباد
ہر ایک آنکھ کے دیکھنے کا انداز اپنا ہی ہوتا ہے ہر آنکھ ایک منظر کو ایک جیسی نظر سے نہیں دیکھ رہی ہوتی کیونکہ ایک آنکھ کو ایک ہی منظر اچھا لگ رہا ہوتا مگر دوسری آنکھ کو وہی منظر بہت برا لگ رہا ہوتا اسی طرح ہر انسان کو الله پاک کی ذات نے الگ ہی بنایا ہے اسکی سوچ اسکی صورت اس کا قد کاٹھ رہن سہن طور طریقے بھی الگ ہی بنائے ہیں کسی کو اتنی بلندی سے نوازا کہ اس کو نیچے دیکھنا بھی پسند نہیں اور کوئی بلند ہو کےبھی خود کو زمین کا کیڑا سمجھتا خود میں عاجزی رکھتا انکساری رکھتا۔کوئی اتنا غریب کے کھانے کو روٹی کے لیے ترستا ہے مگر پھر بھی اسکی زبان پے ناشکری کی بجائے شکر کے کلمات جاری رہتےپھر بھی وہ اپنے سے اوپر والے کو دیکھ کر جلتا نہیں خود کو حقیر نہیں کہتا بلکہ خود کو اپنے پروردگار کی بہترین تخلیق کہتا کیونکہ ہم سب کی قسمت ہم سب کا نصیب اس نے ایک دوسرے سے جدا بنایا کچھ ایسے کہ جو نگاہ جھکا کر عاجزی سے چلتے ہیں اور کچھ ایسے کہ جو زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں یہ بالائے تاق رکھ کرکے اسی زمین کے پیٹ میں جا سونا ہے وہی آخری بچھونا ہے کچھ وہ جو پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے والے اور کچھ ایسے جو چار پانچ فٹ کی اونچائی سےڈرنےوالےہیں کچھ ایسے کہ گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوۓ ہیں اور کچھ وہ کہ جو اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑا ہونے سے ڈرتے ہیں۔جو صرف اپنے پاک پروردگار کو راضی کرنے میں لگے ہوئے ہیں کچھ ایسے ہیں کہ جن کو نا رات کی خبر نا دن کا پتا وہ اپنی رنگین دنیا میں مگن رہتے جو آخرت کو بھولے ہوئے ہیں اور کچھ ایسے جو کبھی بھی کسی بھی حال میں اپنے رب کو نہیں بھولنے والے کچھ ایسے کہ جو خود پر کبر چڑھا کے رکھتے جبکہ کبریائی صرف اور صرف میرے الللہ پاک کی صفت ہےکچھ کے پاس اتنی دولت کہ ان کو یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ کہاں کہاں اس کے اساسے ہیں اور کچھ ایسے کہ بنا سائبان بنا چھت کے آسمان کو اپنی چھت اپنا لحاف سمجھ کر سو جاتے ہیں اس سوچ یقین بھروسے کے ساتھ کہ یہ پروردگار کے پیدا کرنے والے کے رنگ ہیں ان سب تخلیقات مین اس پیدا کرنے والے خالق کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہے اور وہ ہر چاہت پر قادر ہے۔
اختتام
0