اسلام آباد (بی بی سی) ترجمان وزیراعظم آزاد کشمیر توصیف عباسی نے کہا کہ سینیٹ آف پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس مظلوم کشمیریوں کی آواز بن گئے اور بھرپور انداز میں کشمیریوں کی نمائندگی کی۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خان ریاست کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں ایوان بالا میں خطاب کیلئے مدعو کیا گیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں جسطرح مقبوضہ کشمیر کے مظلوم ماؤں بہنوں کی بہترین ترجمانی کی اس کی مثال ریاست کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ترجمان وزیراعظم آزاد کشمیر توصیف عباسی نے کہا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کی کوشش ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دنیا کی توجہ کشمیر پر مبذول کرانا چاہتے ہیں۔بھارت کی جانب سے مظلوم کشمیریوں پر بربریت اور کشمیری حریت رہنماؤں کی نظر بندی اور مظلوم کشمیریوں پر تشدد پوری دنیا کا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا رپورٹ کر رہا ہے۔ ترجمان وزیراعظم آزاد کشمیر توصیف عباسی نے کہا کہ پاکستان کا میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے اسے قومی مسئلہ کے طور پر پیش کرے۔ الیکٹرانک میڈیابھی پرنٹ میڈیا کی طرح تحریک آزادی کشمیر کی سرگرمیوں کو خصوصی کوریج دے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر اور کشمیریوں کا حقیقی نکتہ نظر دنیا تک پہنچانے میں معاونت کرے۔توصیف عباسی نے کہا کہ کہ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے اپنے پیغام میں پاکستان کے تمام سابق اور موجودہ سفارت کاروں، تجزیہ نگاروں و دانشوروں سے اپیل کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے سب اپنی صلاحیتوں کو صرف کریں اور اسلام آباد میں موجود عالمی سفارتکاروں کو کشمیریوں کا ہمنوا بنانے میں آزاد کشمیر حکومت کی معاونت کریں۔ ترجمان وزیراعظم آزاد کشمیر توصیف عباسی نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر دو مسئلے اپنے حل کے منتظر ہیں ان میں پہلا بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کا اور دوسرا فلسطین کا ہے۔ ایک جگہ بھارت نے اپنا غیر قانونی قبضہ قائم کر رکھا ہے تو دوسری طرف فلسطین پر صہیونیوں نے اپنے غاصبانہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل صرف ان علاقوں کے رہنے والوں یا مسلمانوں ہی سے جڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ پوری بین الاقوامی برداری اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے ان کے حل کے لیے جواب دہ ہیں۔
0