0

غزل سید حسن نقوی

خدا کبھی تھا تو رفو گرِ ازل , نہیں رہا
تری خلق پہ تیرا نام کوئی چل نہیں رہا

میں ایسا پیڑ ہوں جسے بہار آئی ہی نہیں
میں کہہ رہا ہوں اب جلا دو میں بدل نہیں رہا

اجل ، اجل! ہمار بھی کبھی صدا سنو اجل
ھم سے مزید بھارِ زندگی سنبھل نہیں رہا

تجھے تو عشق ہوگیا تھا دوست ، بولتا نہیں
قلندری میں آگیا ہے تو اُچھل نہیں رہا

میں چاک پر کسی بھی کام آ نہیں سکا تو کیا
مجھے مسل اے کوزہ گر تُو کیوں مسل نہیں رہا

خدا کے قرب کی جگہ نصیب ہوئی ہے مجھے
خدا کا شکر درمیان میں خلل نہیں رہا

یہ جنّتیں مرا مکا،ن ہیں مجھے نہ روکئے
بلاوجہ یہاں وہاں حَسن ٹہل نہیں رہا

سید حسن نقوی

کیٹاگری میں : ادب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں