
غزل
ہجر کی وادی میں آتا ہے چلا جاتا ہے
وہ مرا درد بڑھاتا ہے چلا جاتا ہے
ایک مدت سے یہی اسکی ادا دیکھی ہے
زلف چہرے سے ہٹاتا ہے چلا جاتا ہے
قیس ڈرتا ہے مرے پاس نہیں رہتا ہے
آیت ہجر سناتا ہے چلا جاتا ہے
تجھ پہ ہر چیز لٹانے کو تھا تیار بہت
اب وہ دستار بچاتا ہے چلا جاتا ہے
پہلے سنتا تھا وہ ہر بات تسلی سے مگر
اب فقط اپنی سناتا ہے چلا جاتا ہے
ہے ترا ہجر بھی بلکل ترے جیسا ناطق
یعنی کچھ دیر ستاتا ہے چلا جاتا ہے
عمار ناطق