0

غزل ثمن سرفراز

غزل

تیرے کردار ترے طور میں کھوئی ہوئی ہوں
تو سمجھتا ہے کسی اور میں کھوئی ہوئی ہوں

نور اتنا تھا کہ چہرے کو نہیں دیکھ سکی
اسکی انگلی کی کسی پور میں کھوئی ہوئی ہوں

اتنے رنگوں میں گھری ہے تری تصویر کہ اب
ایسا لگتا ہے کسی مور میں کھوئی ہوں

چل رہی ہوں میں تری یاد کی پگڈنڈی پر
تجھ سے وابستہ ترے دور میں کھوئی ہوئی ہوں

ایسا لگتا ہے مجھے نقش کرے گا خود میں
اسکی آنکھوں کی بہت غور میں کھوئی ہوئی ہوں

اِن ڈکیتوں کی سیاست سے مجھے کیا لینا
میں مرےدل کے کسی چور میں کھوئی ہوئی ہوں

دل کی آواز ابھی تک نہیں سن پائی ثمن!
میں تہہِ بند بہت شور میں کھوئی ہوئی ہوں
(ثمن سرفراز)

کیٹاگری میں : ادب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں