اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
میں نے اک شخص کو مارا ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
ہجر کا خنجر دل میں اُتارا ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
سوزِ جگر کو جانا دلکش نظارہ ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
محمد بخشؒ کو پڑھتے وقت گزارا ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
میرے وجود میں کوئی آوارہ ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
شب بھر روتا کوئی بیچارہ ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
روشنائی نہیں قلم سے خون گزارا ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
ڈوب رہا ہوں جبکہ پاس کنارہ ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
فقیری طرز پر بھیس نکھارا ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
شائقِ آبِ شیریں،پیتا آب خارا ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
اے عشق! اب دِلدارؔ تمھارا ہے
اِک شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے
شاعر آر۔اے۔دلدارؔ