0

ے روزگاری،غربت کے ہاتھوں چار خون


لوگو:زیر و زبر
تحریر:راؤ غلام مصطفٰی
Email:rgmustafa555@yahoo.com
ے روزگاری،غربت کے ہاتھوں چار خون

بڑی افسوس ناک،دلخراش خبر ہے کہ بہاولپور کی تحصیل حاصل پور میں میاں بیوی نے مل کر بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر اپنے دونوں معصوم بچوں کو اپنے ہاتھوں سے زہر دے کر ابدی نیند سلا دیا اور دونوں میاں بیوی نے زندگی کی تلخی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرتے ہوئے زہر پی کر خود کو بھی منوں مٹی تلے دفن کر لیا۔ خبر یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے دونوں میاں بیوی کے شب و روز موت و حیات کی کشمکش میں گذر رہے تھےمیاں بیوی کام نہ ملنے کی وجہ سے تین ماہ سے مکان کا کرایہ نہیں دے پا رہے تھے گھر میں بے روزگاری اور غربت کے ڈیرے تھے مالک مکان نے کرایہ نہ دینے پر گھر خالی کرنے کا کہا ہوا تھا محکمہ واپڈا نے بھی ان کی استطاعت سے کہیں زیادہ 17 ہزار پانچ سو روپے کا بھاری بھر کم بل بھیج کر ان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور مقررہ تاریخ پر بل ادا نہ ہونے کے باعث محکمہ نے بجلی کا میٹر تک اتار لیا تھا۔
ستمگر حالات میں شدید کرب میں مبتلا غریب والدین پر اس لمحہ قیامت ڈھے گئی جب ان کے دو بلکتے ہوئے بچوں نے دودھ پینے کی خواہش کی دودھ تو نہ مل سکا لیکن غربت و بے روزگاری سے تنگ والدین نے دونوں بچوں کو زہر پلا کر انہیں خواہشات سمیٹ موت کے حوالے کر دیا اور بچوں نے بلکتے اور سسکتے ہوئے ان کی پتھرائی آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیا یہ وہی والدین جانتے ہیں کہ غربت اور بے روزگاری نے ان کی زندگی کے لمحات میں کتنا زہر بھر دیا تھا کہ انہوں نے بچوں کو زہر دینے کے بعد خود بھی زہر پی کر خود کو موت کی آغوش میں دینے میں ہی عافیت جانی۔ان والدین کے کرایہ کے مکان کی در و دیوار پر کس حد تک بے روزگاری اور غربت سر پٹھکتی پھر رہی ہو گی اور ان کے حالات سے جھلکتی غربت سماج کے ٹھیکیداروں کے مردہ ضمیروں کو کس شدت کے ساتھ جھنجھوڑ رہی ہو گی لیکن سماج احساس سے عاری انہیں موت کے حوالے ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا اور یہ والدین اپنے دو بچوں سمیت بے حس معاشرے سے کوچ کر کے وہاں پہنچ گئے جہاں سکندر جیسے بھی خالی ہاتھ گئے۔ہم سب ان مرنے والے والدین اور معصوم بچوں کے مجرم ہیں یہ حکمران روز محشر جوابدہ ہیں اور ہر وہ شخص محشر کے روز جوابدہ ہے جو ان کے حالات سے باخبر استطاعت کے باوجود چشم پوشی سے کام لیتا رہا ۔ملک میں جو حالات چل رہے غربت اور بےروزگاری نے جو کہرام بپا کیا ہوا ہے ایسے حالات میں غریب پر تو مزید غربت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں لیکن متوسط طبقہ بھی پس کر رہ گیا سفید پوش حالات کے ہاتھوں تنگ اپنی زندگی میں تلخی گھلتے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے ان حالات میں معاشرے کے صاحب ثروت افراد کو چاہئیے کہ ایسے میں اپنی ظرف اور جیب کو فراخ کریں تاکہ کوئی غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں قضا کو گلے نہ لگائے۔ملک کے حالات کی کسی سمت کا تعین نہیں ہو پا رہا کہ حالات کا پہیہ کیا رخ اختیار کرے گا ابھی تک تو تجربہ کار حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ انہوں نے ملکی حالات کو کس نہج پر پہنچا دیا ہے ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے خود کشیاں اب غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں بیچ چوراہے ہو رہی ہیں۔پاکستان جو بہترین جغرافیائی خدوخال رکھنے والا ملک ہے، چاروں موسم اس دھرتی کو میسر ہیں زراعت میں خود کفیل اور قدرتی وسائل کے بیش قیمت خزانے اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے اس کے باوجود اگر آج بھی اس ملک کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں کشکول ہے تو حیرت اور تعجب ہے۔ملکوں کی ترقی کے رازوں سے بے نیاز اگر اس جدید دنیا میں کوئی حکمران پائے جاتے ہیں تو وہ ملک پاکستان ہے جہاں ملکی دولت اور وسائل پر دن دیہاڑے بڑی مہارت سے نقب لگا کر اپنی جائیدادوں اور سرمائے کو سرحد پار ممالک میں فروغ دے رہے ہیں۔ جب کہ ملک کے حالات ایسے ہیں جہاں غربت و بےروزگاری کا رقص سربازار جاری ہے بھوک و افلاس موت بن کر لوگوں کو نگل رہی ہے اور حکمران عشرت کدوں میں زندگی کے دن غریبوں کا درد دل میں لئے سکون سے بسر کر رہے ہیں۔اگر حالات کی چکی ایسے ہی چلتی رہی تو حاصل پور میں ہونے والے واقعہ کے تسلسل کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا اور ایک وقت آئے گا کہ بھوک و افلاس سے تنگ لوگ اقتداری ایوانوں سے بے حس،بے رحم حکمرانوں کو نکال باہر کریں گے بے رحم وقت کے قہر سے بچیں اور عوام کے دن اور اوقات کا خیال رکھیں کہ روٹی کے حصول کے لئے کیسے زندگی کےپل صراط سے گزر رہے ہیں۔حاصل پور میں ہونے والے واقعہ کی ہولناکی نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بے حس حکمرانوں اور احساس سے عاری یہ سماج چار ہونے والی اموات کا ذمہ دار ہے یہ کہا نہیں جا سکتا کہ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن حکمرانوں کی بے حسی انتہاؤں کو چھو رہی ہے حکمرانوں کے کسی بھی اقدام سے عوام کو ٹھنڈی ہوا نہیں آ رہی صرف ملک میں مفاداتی سیاست کا گھناؤنا کھیل جاری ہے۔پچھتر برس کے اس ملک کو کرپشن، بد عنوانی،اقرباء پروری،نا انصافی، لاقانونیت، بےروزگاری، غربت جیسے زہر آلود مسائل دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور سات دہائیوں سے زائد کا سفر طے کرنے کے باوجود اس ملک کی تقدیر بدلنے کی دعویدار سیاسی اشرافیہ اپنے دن رات کو تو مراعات سے معطر کرتے رہے لیکن عوام کے دن رات نہ بدل سکے اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے میں ناکام رہے۔ہمیشہ انہی معاشروں نے ترقی کے مدارج طے کئے جنہوں نے معاشرے میں بسنے والے باسیوں کا معیار زندگی بہتر بنایا اور معاشرے کو وقار بخشا۔پاکستان میں عوام کو ایسی قیادت میسر نہیں آئی جو قابل،اہل اور ویثزنری ہو جو ملک کی عوام کو ملکی ترقی و خوشحالی کے دھارے میں شامل کر سکے۔جہاں اہل اور قابل قیادت کا فقدان ہو وہاں بہترین جغرافیائی خدوخال رکھنے والا ملک، زراعت میں خود کفیل، بہترین موسموں سے مزین،قدرتی وسائل سے مالا مال دھرتی بھی بے ثمر ہو جاتی ہے ۔انسانی معاشرے انسانی حقوق کے علمبردار ہوتے ہیں بے حس حیوانی معاشرے دہشت اور وحشت کی علامت بن جاتے ہیں ایسے معاشروں میں زندگی کی تلخی کو زہر رگوں میں اتار کر ہی عافیت سمجھا جاتا ہے وہاں پھر حاصل پور میں ہونے والے واقعات کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا ایسے واقعات کا تسلسل انہی معاشروں میں قائم رہ سکتا ہے جہاں کے حکمران بے حس،بے رحم اور معاشرے احساس اور انصاف سے عاری ہوں۔ان سزا وار حالات میں حاصل پور میں ہونے والی چار اموات کا نوحہ کون سنے گا اور ان اموات کا خون کس کے ہاتھ پر ہے یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ حکمران اشرافیہ اور بے حس سماج کے در پر دستک دے رہا ہے۔
رابطہ نمبر:03066470055

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں