0

آپ کو پریشان ہونے کا کوئی حق نہیں؟ تحریر : ثمن سرفراز


آپ کو پریشان ہونے کا کوئی حق نہیں؟
تحریر : ثمن سرفراز
میں نے مجھ سے منسلک ہر غم میں میرے والدین و اساتذہ کو مجھ سے زیادہ غمگین دیکھا ہے۔
میں جب جب تذبذت کی شکار ہوئی اپنی والدہ کو خود سے زیادہ پایا بےچین پایا۔
کبھی ماں کے د کھتے پاؤں دپانا چاہے تو ماں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بیٹا تمھارے اپنے ہاتھ دکھ رہے ہیں۔ میں جب جب زیست کی دوڑ میں تھک کر گری میری والدہ کی آنکھیں نم دیکھیں، باوجود اس کے انھوں نے ہمیشہ میری ہمت بندھائی۔
ماں اپنے ہر درد کو ہمیشہ پسِ پشت ڈالتی رہی، یوں لگا جیسے ہمارے اپنے درد اسکی تمام اپنی تکالیف سے زیادہ متاثر کرتے ہوں
میں نے اپنے ہر معاملے میں اپنی ماں کو مجھ سے کہیں زیادہ حساس پایا ہے۔
میں خود اداس رہ سکتی ہوں مگر کسی قیمت پر اپنی ماں کو نہیں دیکھ سکتی، اور میری ماں مجھے نہیں دیکھ سکتی۔
میرے والد جو دنیا سے لڑ کر بھی بے چین اور کمزور نہیں ہوئے انہیں اپنے نصیبوں کو لے کر بہت مضطرب پایا ہے۔
انھوں نے گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں بھی خود پر کڑی دھوپ برداشت کی تاکہ مجھے موسموں کی سختیوں، دنیا کے تھپیڑوں سے بچا کرغنچہ سے گلاب بناسکیں۔
میری خوشی پر گرچہ اچھے نمبر ہوں یا میری اسکالرشپ یا پھر میری پہلی شاعری شائع ہوتے کی خوشخبری، میرے والد مجھ سے زیادہ جشن مناتے نظر آئے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور اپنی بیٹی کے لیے فخر دیکھ کر دلی اطمینان اور مسرت ہوئی۔ مجھے اکثر اپنے والد کی آنکھوں میری خوشی پر خوشی کے آنسو دیکھ کر اور میرے دکھ میں بوجھل آنکھیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ میں ہی اپنے والد کی طاقت ہوں اور میں ہی انکی کمزوری۔ میں ہی ان کی دستار ہوں اور میں ہی ان کی عزت کی محافظ۔
جہاں تک میرے والدین کو خوش دیکھنے کی بات ہے تو مجھے خود کو خوش دکھانا ہوگا کیونکہ ان کی خوشی مجھ سے منسوب ہے۔
میں نےاپنے والد کو ٹوٹا ہواچشمے کا کوود(cover) استعمال کرتے دیکھا ہے اس وقت تک جس وقت تک میری تمام ضروریات پوری نہ ہوئیں۔ میرے والد نے اپنی ہر ضرورت پر میری ضرورت کو ترجیح دی ۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ تھوڑا غصہ کرتے ہیں لیکن یقین مانیں انکے غصے میں پیار کا وہ سمندر امنڈتا ہے جو ناقابلِ بیاں ہیں۔۔۔۔
میں اپنے ماما پاپا دونوں کو اکھٹا بیٹھا دیکھ کر کئی انکے سامنے بیٹھ جاتی ہوں انھیں دیکھتی رہتی ہوں,بہت سکون ملتا ہے، میں صدیوں تک انکو دیکھ سکتی ہوں۔۔میری آنکھیں کبھی نہیں تھکتیں۔ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہی یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ میری پریشانی مجھ تک محدود نہ رہی سو مجھے پریشان ہونے کا کوئی حق نہیں۔میں نے اپنے اساتذہ کو میری کامیابی پر مجھ سے زیادہ خوش دیکھا ہے۔جنھوں نے میری انگلی پکڑ کر مجھے چلنا سکھایا، میرے خیالات کی پرواز ان کے مہیا کردہ پروں کی بدولت ممکن ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ میری ہر ناکامی پر میں نے اپنے اساتذہ کو میری حوصلہ افزائی کرتے پایا ہے۔ جب کبھی میں ہمت ہارنے کے قریب ہوئی میرے استاذ کی نصیحت اور دعا مجھے مضبوط بناتی گئ۔
میں نے اپنے استاتذہ کو اپنے مستقبل کے بارے متجسس دیکھا ہے، میں نے استاتذہ بے لوث خدمتِ خلق میں مشغول پایا ہے۔
میں نے استاذ کو شاگرد سے ڈھیروں امیدیں باندھتے ہوئے دیکھا ہے۔اساتذہ کو خود سے زیادہ پریشان دیکھا ہے اپنی ناکامی اور سستی پر، میں نے اپنے والد کے تبادلے پر اپنے پرنسپل کی نم آنکھیں دیکھی ہیں۔ میں نے استاذ کو مثلِ حضر دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ روحانی والدین ہے۔ بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ جہاں آپ کی پریشانی آپ سے منسلک خوبصورت لوگوں کو پریشان کر دے چاہے وہ کوئی بھی بےلوث چاہنے والا ہو، وہاں آپ کو پریشان ہونے کا قطعََا حق نہیں۔
ہمیشہ مسکراتے رہیں، زندگی کی لڑائی آپکو خود لڑنی ہے نصیحات پر عمل پیرا ہو کر لڑ لیں.اللہ پاک غیر متزل حوصلوں سے لڑکر تمام امیدیں بر لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
خوش رہیے، دعائیں لیجیے، تاکہ آپ سے منسلک لوگ خوش رہ سکیں آپ اپنی ذات تک محدود نہیں رہے سو دوسروں کی طاقت بنیں۔

(تحریر :ثمن سرفراز)

کیٹاگری میں : ادب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں